کالم

کشمیر پر پاک بھارت مزاکرات کیسے ممکن ہیں؟

کشمیر کے مسئلے پر ہمارا موقف اصولی اور نظریاتی طور پر درست ہے۔ ہم ہر سطح پر کشمیر کی تحریک کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں مظاہرے کرتے ہیں کالم لکھے جاتے ہیں، سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں اور تقریریں کی جاتی ہیں مگر بدقسمتی سے یہ ساری کوششیں اب صرف نعروں اور بیانات تک محدود ہو چکی ہیں ۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال یا اسٹیٹس کو اس وقت تک جوں کا توں رہے گا جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات نہیں ہوتے۔تاہم مئی کی محدود جنگ کے بعد ایسے مذاکرات کا امکان مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری صورت صرف جنگ ہے جس کی جتنی ہمت ہے وہ کر گزرے لیکن دونوں ممالک کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ایک ایٹمی خطے میں جنگ کا مطلب صرف تباہی، انسانی نقصان اور اقتصادی بربادی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص ایسی جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے نقصانات کسی ممکنہ فائدے سے کہیں زیادہ ہوں گے ۔ اگر بالفرض مذاکرات شروع بھی ہوں تو وہ اس وقت تک بے معنی رہیں گے جب تک پاکستان میں ایک حقیقی جمہوری اور عوامی حکومت قائم نہیں ہوتی ایسی حکومت جو پارلیمنٹ اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق فیصلے کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہو اور اسٹبلشمنٹ اسکی مکمل تائید و حمایت نہ کرے دوسری طرف بھارت میں جب تک نریندر مودی یا ان کی جماعت بی جے پی اقتدار میں ہیں، پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مودی سرکار مئی کی جھڑپوں کے بعد بدلہ لینے کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ اگرچہ ان کی پراکسی وار بدستور جاری ہے، لیکن اپنے عوام کے سامنے سیاسی فائدے کیلئے انہیں اس سے بڑھ کر کسی واضح فتح کی ضرورت ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پاک بھارت کشیدگی اور جہاز گرائے جانے سے متعلق بیانات بظاہر پاکستان کیلئے خوشی کا باعث ہیں لیکن حقیقت میں وہ نریندر مودی اور بی جے پی کو مزید بھڑکانے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کرنے کی ایک چال بھی ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں بیانات ہمیشہ مفاد کے تابع ہوتے ہیں امریکہ اور ٹرمپ کا مفاد خطے کے امن سے زیادہ اپنے مفادات اور سیاسی شہرت میں ہے ۔میری رائے میں گزشتہ 78 برسوں میں کشمیر کے مسئلے پر سب سے زیادہ عملی پیش رفت جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی۔ اس وقت دونوں اطراف کے کشمیریوں کے درمیان آمدورفت شروع ہوئی، لائن آف کنٹرول نرم ہوئی، اور یوں پہلی بار یہ احساس پیدا ہوا کہ شاید برف پگھلنے والی ہے۔اگرچہ میں جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا ناقد رہا ہوں، لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ اس فارمولے پر ازسرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں خورشید محمود قصوری کی کتاب میں بھی یہی دعوی کیا گیا کہ مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات بہت قریب آ گئے تھے۔ مگر وکلا تحریک، سیاسی ہلچل اور پھر انتخابات کے بعد وہ موقع ہاتھ سے نکل گیا اور مشرف کا نو سالہ دور ختم ہوگیا ۔ 2019 سے مقبوضہ کشمیر کے لوگ پابند سلاسل ہیں ان پر مئی کی جنگ سے پہلے اور بعد میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ہم اس سلسلے میں بے بس نظر آتے ہیں ۔جبکہ آزادی کے بیس کیمپ میں جہاں تک آزاد کشمیر کی داخلی سیاست کا تعلق ہے، وہاں حالیہ حکومت کی تبدیلی دراصل ایک کمزور نظام کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کی تبدیلی، کابینہ کی ری شفلنگ اور وفاداریوں کی لین دین صرف اقتدار، عہدوں اور مالی مفادات کے کھیل تک محدود ہیں۔ عوامی فلاح یا پالیسی کی کوئی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔29 ستمبر کو عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کے دوران عوامی ردعمل نے سب کچھ واضح کر دیا کہ عوام اب ان سیاسی کھیلوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ایکشن کمیٹی کے مطالبات مکمل طور پر عوامی نوعیت کے ہیں۔ مہنگائی، بجلی کے نرخ، ٹیکسوں میں ناانصافی اور روزمرہ مسائل جنہیں حل کرنا آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری تھی۔ جب وفاقی حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم کر لیا تو اس سے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ آزاد کشمیر کا موجودہ حکومتی ڈھانچہ کسی طور پر موثر یا قابلِ عمل نہیں رہا۔ عوامی مسائل کے حل کیلئے جب وفاق کو مداخلت کرنا پڑے، تو یہ خود اس نظام کی ناکامی کا اعتراف ہے پھر ایسے بندوبست کی ضرورت کیا ہے ۔یہ صورتحال آزاد کشمیر کے عوام کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ قیادت کا کام صرف اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا نہیں بلکہ عوام کے اعتماد اور مسائل کا حقیقی حل پیش کرنا ہے۔ جب تک یہ سوچ اور رویہ تبدیل نہیں ہوتا، نہ کشمیر کی تحریک میں نئی جان پڑے گی اور نہ ہی خطے میں کوئی پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے