تحریر: عرفان صدیقی
۔کل ، 8 مئی کی نصف شب ، 9 مئی 2023 کو ایک برس بیت جائے گا ۔ 365 دن ۔ 365 راتیں ۔
ہماری سیاست رنگا رنگ احتجاجوں اور تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاست دانوں کے حوالے سے پھانسی گھاٹوں قتل گاہوں، بندی خانوں اور جلا وطنیوں تک ظلم وستم کی درجنوں داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن رد عمل کے طور پر ایسے آتشیں مناظر کا دھندلا سا عکس بھی دکھائی نہیں دیتا جو 9 مئی کو ہماری لوح تاریخ پر رقم ہوئے۔ یہ جو کچھ بھی تھا، جزئیات کی حد تک منصوبہ بند تھا۔ تمام تر حرکیات کے اعتبار سے منتظم تھا۔ اہداف کے بارے میں پوری طرح واضح اور مقاصد کے حوالے سے کلی طور پر غیر مبہم ۔ سازش کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ریڈ لائن قرار دیے گئے بانی تحریک انصاف کی گرفتاری کے ساتھ ہی طبل جنگ بجے گا ۔ کوئٹہ سے چکدرہ تک سینکڑوں فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ منصوبے کا اگلا مفروضہ یہ تھا کہ فوج اس یلغار کا ترکی بہ ترکی جواب دے گی۔ ہر سو کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے۔ خون کی ندیاں بہیں گی۔ اس گشت و خون سے تیسرا مرحلہ جنم لے گا۔ فوج کی صفوں میں اشتعال اٹھے گا۔ پہلے سے شریک منصو بہ سرپرست پوری قوت سے متحرک ہوں گے۔ بغاوت کا لاوہ پھوٹے گا جو جنرل عاصم منیر سمیت سب کچھ بہا لے جائے گا ۔ ایک نیا جرنیل مند سنبھالے گا۔ جسٹس بندیال گڈ ٹوسی یو والا کردار ادا کریں گے۔ عمران خان عسکری بگھی میں سوار ہو کر وز یر اعظم ہاس پہنچیں گے۔ انقلاب مکمل ہو جائے گا۔ مخالفین کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو کسی بھی کامیاب بغاوت کے بعد کامران لشکری ، ہار جانے والے مخالفین سے کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے صف شکن مردوں اور جانباز خواتین نے پہلا معرکہ کسی مزاحمت کے بغیر سر کر لیا۔ تربیت یافتہ جتھوں کی طرح دوسو سے زیادہ عسکری مقامات پر حملے کئے۔ لیکن فوج کے دانشمندانہ رد عمل نے باقی سارے مراحل کو خواب پریشاں بنا دیا۔ ادارے کے اندر متحرک ہونے کے لئے پر تولتے غمگساران انصاف کو غیر موثر کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان میں سے بیشتر کو سزائیں سنا کر فوج سیفارغ کر دیا گیا۔ لیکن 9 مئی کے مرکزی کردار ، منصوبہ ساز اور سہولت کار ابھی تک نہ صرف سزائیں نہیں پاسکے، ان کے چہرے بھی ٹھوس شواہد اور جرائم کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ قوم کے سامنے نہیں لائے جاسکے۔365 دنوں اور 365 راتوں کے دوران
میں مسلح افواج نے ہمیں بار بار بتایا اور باور کرایا کہ دو مئی قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ سیاست کا لبادہ اوڑھے اقتدار پرستوں نے وہ کچھ کر ڈالا جو پچہتر برسوں میں ہمارا دشمن بھی نہ کر سکا۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت (Rebellion) کی آگ بھڑکانے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جائے گا۔ فسادیوں کے بدنما چہرے انسانی حقوق کے پر فریب پردوں میں چھپنے نہیں دیں گے ۔ 9 مئی کو بھلائیں گے نہ معاف کریں گے۔ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش (Conspiracy) ہے۔ منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو کل کوئی اور سیاسی گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہی کچھ کریسہ تمام پر عزم اعلانات آئی۔
لی۔ آر اور کور کمانڈرز کانفرنسوں کے اعلامیوں سے لئے گئے ہیں لیکن 365 دنوں اور 365راتوں کے بعد بھی قانون کا شکنجہ کسا جاسکا نہ کوئی منصوبہ ساز کیفر کردار کو پہنچا۔ اس کے برعکس، ریاستی رد عمل سے ہراساں، پناہ گاہوں میں دیکی ، ڈری سہمی تحریک انصاف ، 8 فروری 2024 کا سائباں تانے ، دیکتی دھوپ، کڑکتی بجلیوں اور بادوباراں کے طوفانوں سے بے نیاز ہو کر ایوانوں اور میدانوں میں سرگرم ہو چکی ہے۔ حوصلے اس قدر بلند ہو گئے ہیں کہ وہ 9 مئی کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کل ہی ایک مرکزی خاتون راہنمانے 9 مئی کو فوج کا فالس فلیگ آپریشن (False Flag Operation) قرار دیا۔ معنی آسان زبان میں یہ ہیں کہ 9 مئی دراصل فوج کا اپنا تیار کردہ منصوبہ تھا جس کا ملبہ جعلسازی سے پی۔ٹی۔آئی کے سر ڈال دیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت ، جرم کی سنگینی کو کم کر دیتا ہے۔ مجرموں کی آستینوں کے داغ مدہم پڑ جاتے ہیں ۔ ڈھیل ، جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی ڈھال بن جاتی ہے۔ مکروہ جرائم کے مقدمات، انتقامی کارروائیاں بن جاتے ہیں۔ قانون وانصاف کا عملتما شا قرار پاتا ہے۔ سزائیں، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بن جاتی ہیں۔ وافر سرمائے کے زور پر سازش اور بغاوت کو قانونِ کرایہ داری کی خلاف ورزی جیسا ٹھٹھہ مخول بنادیا جاتا ہے۔ جرم پس پردہ چلا جاتا ہے۔ شوخ چشم مجرم ، مدعی بن جاتا ہے۔ ریاست کو ہے۔شور دفاعی کٹہرے میں دھکیل دیا جاتا ہے اور کسی اور کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے اسے اپنا دامان عصمت بچانے کی پڑ جاتی ہے۔ آج کچھ ایسا ہی منظر دکھائی دے رہا ہےالیں۔
پی ۔ ٹی ۔ آئی آسودگی بخش ترنم کے ساتھ، ناصر کاظمی کا شعر گنگناتی پھر رہی ہے
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی ، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیاوہ
بے شک اس کی بھاری راتیں ٹل گئی ہیں۔ اس کے کڑے دن بھی گزر گئے ہیں اور اس کی جان بھی سنبھلنے لگی ہے لیکن کیا رنگ آسماں بھی بدل گیا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پی ۔ ٹی۔ آئی بھی اور قوم کو بھی بتا کر 9 مئی کے سیاہ ورق کو اپنی تقویم سے پھاڑ پھینکا جائے اور اگر دو مئی کو معاف کرنا اور بھلا نا ممکن نہیں تو اس کا بھی کوئی جواز نہیں کہ 365 دنوں اور 365 راتوں تک، آئین و قانون میں درج جابر ضابطے کسی غار میں اصحاب کہف جیسی طویل گہری نیند سوئے رہیں ۔ 2011 کے برطانوی فسادات اور 2021 میں ٹرمپ کے حامیوں کی کیپیٹل پل پر یلغار کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دونوں ممالک کی بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں حساسیت ہم سے کم نہیں لیکن قانون تیزی کے ساتھ حرکت میں آیا۔ فوری سماعت کی عدالتیں لگیں۔ جانگیہ چرانے والی خاتون تھی یا سپیکر کی کرسی پر پاں رکھکے تصویر بنوانے والا شخص ، سب کو لمبی قید سنادی گئی۔
مانا کہ یہ ہماری تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی سنگین ترین مجرمانہ واردات ہے اور ہمیں ایسی وارداتوں سے نبٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ مہلک اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ دہشت گرد بھی ایک ہی دن شرق و غرب کی دوسو سے زائد عسکری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنا سکے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انتظامیہ، عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی اجزائے ترکیبی کسی ٹھوس فیصلے پر نہ پہنچ سکیں ۔ 9 مئی تیر نیم کش کی طرح سیاست کے سینے میں پیوست رہے اور اس سے رستا لہو، سیاسی استحکام کی رگوں میں بارود بھرتا رہے۔ 9 مئی کے تصور تراشوں ، منصوبہسازوں ، سہولت کاروں اور بلوائیوں کے خلاف قانون وانصاف کی سست روی کا سبب جو بھی ہے اس سے ریاست اور فوج کے بیانیے کو نقصان پہنچا ہے۔ بغیر مقدمہ چلائے لمبی قید میں پڑے لوگوں سے ہمدردی فطری امر ہے جس کا مظاہرہ 8 فروری کو ہوا۔ 365 دنوں اور 365 راتوں کے بعد کسی نئے اعلامیے یا تازہ پریس کانفرنس سے کام نہیں چلے گا۔ اگر فوج کے بقول 9 مئی کو بھلانا اور معاف کرنا ممکن نہیں ( اور بجاطور پر ممکن نہیں ) تو اسے برف کی دیواروں والے سرد خانے میں پھینک دینا بھی کاردانش نہیں۔