کالم

کم عمری کی شادیاں اور حکومتی قانون سازی

اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے دینِ فطرت قرار دیا ہے۔ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو میں انسان کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے اور انسانی خواہشات، ضروریات اور جبلتوں کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کی تسکین کے لیے جائز اور پاکیزہ راستے فراہم کیے ہیں۔ انہی فطری تقاضوں کو اسلام نے نکاح کے ذریعے منظم کیا۔ قرآن و سنت میں نکاح کو محض سماجی رسم یا وقتی ضرورت کے طور پر نہیں بلکہ ایک مستقل عبادت، انسانی زندگی کی تکمیل اور نسل انسانی کی بقا کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔اسلام نے انسان کو نکاح کا حق دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:ترجمہ:اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔(النور: 32)یہ آیت نکاح کی اہمیت اور اس کے فوری اہتمام پر زور دیتی ہے۔ انسان اپنی فطری خواہش کو حلال دائرے میں پوری کرے اور کسی بھی غیر اخلاقی یا حرام راستے پر نہ چلے۔انسانی زندگی میں تیسرا عشرہ وہ وقت ہوتا ہے جب جسمانی و ذہنی اعتبار سے انسان میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نئی زندگی شروع کر سکے۔ نکاح ایک کامل اور متوازن نظام ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کے دور میں بعض نام نہاد سماجی تنظیمیں اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے نکاح کے اس فطری اور شرعی حق کو چھیننے کے درپے ہیں۔ وہ نکاح کے لیے حدِ عمر مقرر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ممبران اسمبلی کے ذریعے ایسے قوانین پاس کرائے گئے جو اسلام، فطرت اور معاشرتی ضرورت کے منافی ہیں۔ یہ کوشش دراصل خواتین کے بنیادی حق پر ڈاکہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ لاکھوں خواتین ایسی ہیں جن کے بالوں میں چاندی آگئی لیکن وہ نکاح اور شادی کے مقدس بندھن میں نہ بندھ سکیں۔ یہ المیہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے۔ نکاح کے لیے قانونی رکاوٹیں اور سماجی پیچیدگیاں ان خواتین کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب اسلام نے مقرر کردہ عمر کے فوری بعد حق دے دیا تو ہم کس بنیاد پر اس حق کو سلب کر سکتے ہیں؟ کیا ہم فطرت کو بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم انسانی خواہشات کو قوانین کی دیوار سے روک سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے قوانین معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ نتیجتاً ناجائز تعلقات بڑھتے ہیں، زنا عام ہوتا ہے، خاندان بکھرتے ہیں اور معاشرتی بے سکونی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ عمر کی پابندی لگا کر خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہیلیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خواتین کے حقوق اس وقت پامال ہوتے ہیں جب ان سے ان کے فطری تقاضے اور جائز حقوق چھین لیے جاتے ہیں۔ نکاح کا حق عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت کرتا ہے، اسے تحفظ اور سکون دیتا ہے اور اس کی زندگی کو مقصدیت بخشتا ہے۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ عورت کو نکاح کے ذریعے عزت ملی۔ حضور اکرم ۖ نے فرمایا: ترجمہ: "نکاح میری سنت ہے، اور جو میری سنت سے انکار کرے وہ مجھ سے نہیں۔سنن ابن ماجہ۔یہ حدیث نکاح کی اہمیت اور اس کے لازمی کردار کو واضح کرتی ہے۔بعض سماجی تنظیمیں بیرونی فنڈز اور مغربی ایجنڈوں پر کام کرتی ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے کو فطری راستے سے ہٹانا اور خاندان کو کمزور کرنا ہے۔ یہ تنظیمیں نکاح کے حق کو چھیننے کی بات تو کرتی ہیں لیکن وہ لاکھوں عورتوں کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتیں جو تاحال کنواری بیٹھی ہیں اور شادی کے حق سے محروم ہیں۔
یہ دہرا معیار ہے۔اگر یہ تنظیمیں واقعی خواتین کی خیرخواہ ہوتیں تو وہ ان کی شادی کے لیے آسانیاں پیدا کرتیں، جہیز کے خلاف آواز اٹھاتیں، نکاح کو سادہ بناتیں اور مرد و عورت کے لیے رشتوں کے مواقع فراہم کرتیں لیکن افسوس کہ ان کا مقصد صرف اسلام کے دیے ہوئے فطری نظام کو سبوتاژ کرنا ہے۔نکاح کی عمر کی قانونی پابندی کے کافی نقصانات ہیں۔ زنا اور غیر اخلاقی تعلقات میں اضافہ بڑھ جاتا ہے،جب نوجوانوں کو جائز اور حلال نکاح سے روکا جائے گا تو وہ ناجائز راستے اختیار کریں گے۔یہ انسانی نفسیات کا لازمی نتیجہ ہے۔ معاشرے میں بگاڑ اور خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا ، نکاح کی عمر بڑھانے سے خاندان کا ادارہ کمزور ہوگا، والدین اور اولاد کے درمیان خلیج بڑھے گی۔ نفسیاتی مسائل پیدا ہونگے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دبا، ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوں گے۔ شادی میں تاخیر کے باعث سماجی ڈھانچے میں بگاڑ آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نکاح کے لیے عمر کی قانونی پابندی ختم کی جائے. نکاح کو سادہ اور آسان بنایا جائے تاکہ جہیز اور فضول رسومات رکاوٹ نہ بن سکیں۔ سماجی تنظیمیں نکاح کی مخالفت کے بجائے اس کے فروغ کے لیے مہم چلائیں۔
حکومت ایسے ادارے قائم کرے جو شادی کے خواہش مند مرد و خواتین کے رشتوں میں معاونت کریں۔ میڈیا پر نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور مغربی پروپیگنڈے کو رد کیا جائے۔اسلام نے نکاح کو فطری اور عالمگیر نظام کے طور پر پیش کیا ہے۔ بلوغت کے بعد نکاح انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس حق پر پابندی عائد کرنا اسلام اور فطرت دونوں کے خلاف ہے۔ لاکھوں خواتین جو شادی سے محروم زندگی گزار رہی ہیں، ان کی حالت زار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔انکی شادی کیلئے اقدامات کرنا ہی اصل سماجی خدمت ہے، نہ کہ نکاح کی عمر بڑھانے کے لیے قوانین پاس کرنا۔اس لیے ریاست، معاشرہ اور دینی ادارے مل کر نکاح کے فروغ کیلئے عملی اقدامات کریں اور خواتین کو ان کے بنیادی حق سے محروم نہ کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو اسلام نے دکھایا ہے اور یہی وہ نظام ہے جو انسانیت کی بقا اور معاشرتی سکون کی ضمانت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے