حکومت سندھ نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ2013ءنافذ کیا تھا ،اس قانون کے مطابق صوبہ سندھ میں شادی کےلئے کم ازکم عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی۔صوبہ سندھ میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی قابل تعزیز جرم ہے ، خلاف ورزی کی صورت میںتین سال قید کی سزا اور پینتالیس ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں شادی کی عمر سولہ سال مقرر ہے جبکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر ہر انسان” بچہ "ہے۔ اس قانون کو اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر کنونشن 1989 ءمیں یو این سی سی سی نے منظور کیا ۔(اس قانون کے مطابق ہر مولود بچے کا اندراج لازمی طور پر ہونا چاہیے ،بچوں کی پرورش دیکھ بھال والدین یعنی ماں باپ کی قانونی ذمہ داری ہے، بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنے کا حق رکھتے ہیں، بچے کے حقوق میں اچھی تعلیم اور اشیائے ضروریات شامل ہیں اوربچوں پر تشددغیر قانونی ہے)۔ یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر پانچویں بچے کی کم عمری میں شادی کی جاتی ہے یعنی سالانہ 115 ملین بچوں کی کم عمری میں شادی کی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سات سکینڈ کے بعد پندرہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کی جاتی ہے۔ سیودی چلڈرن کے مطابق دنیا میں کم عمری کی شادیوں کے واقعات کی تعداد ستر کروڑ ہے اور اسی طرح واقعات کا سلسلہ چلتا رہا تو 2030ءتک کم عمری کی شادیوں کے واقعات 95کروڑ ہوجائیں گے۔پاکستان کم عمری کی شادی کی درجہ بندی میں144 ممالک میں88نمبر پر ہے۔کم عمری کی شادی کےخلاف سب سے پہلے برطانوی دور میں 1929ءمیں قانون بنا تھا، قانون کی خلاف ورزی پر ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ تھا لیکن یہ سزا بہت کم ہونے کی وجہ سے لوگ اس قانون کی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ سابقہ صوبائی اسمبلی کے ممبران نے صوبہ پنجاب میں ترمیمی بل منظور کیا ،جس کے مطابق صوبہ پنجاب میں لڑکی کی عمر سولہ سال اور لڑکے کی عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے،اس بل کے تحت کم عمری کی شادی کرانے والے نکاح خواں ، سرپرست یا ولی کو چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ پاکستان میںشرےعی نکاح بھی کرائے جاتے ہیں اور ان کا اندراج نہیں کرتے ہیں، بظاہر ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ہے، اس لئے ان کے خلاف عدم ثبوت کے باعث قانونی کارروائی میں پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ پاکستا ن میں کم عمری کی شادی کا رجحان کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے، دیہاتوں میں 24فی صد جبکہ شہروںمیں18فی صد لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کی جاتی ہے ۔ یونیسیف کے مطابق دنیا میں اس وقت64 کروڑلڑکیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادیاں کررہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک کروڑ20 لاکھ لڑکیاں کم عمر میں شادی کرلیتی ہیں۔چائلڈ میرج یا کم عمری شادی کے متعدد اسباب ہیں، دقیانوسی روایات اور رسم ورواج کے باعث لوگ بچیوں کی جلد شادی کرلیتے ہیں۔ غربت اور افلاس کے باعث بھی لوگ جلد بچیوں کی شادی کرلیتے ہیں۔غلط اور ناقص پالیسیوں کے باعث2018ءکے بعد پاکستان میںبجلی، گیس اور دیگر توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے،اس بڑھتی اور ناقابل برداشت مہنگائی کے باعث غریب تو غریب ، مڈل طبقہ بھی متاثر ہوچکا ہے۔صوبہ پنجاب میں غریب لوگ کم سن بچیوں کو سکولوںسے نکال کر لوگوں کے گھروں میں خادمہ رکھ لیتے ہیں،ان کو بہت کم اجرت پر ملازمہ رکھ لیتے ہیں، اُن کے والدین یہی سوچ کر بچی کو دوسروں کے گھروں میں خادمہ رکھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں کہ وہ کم ازکم کھانا تو باہر سے کھالیں گی۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اس دور میں کھانا کھالینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔شوائد سے عیاں ہوتاہے کہ اکثر لوگ خادماﺅں کو مناسب کھانا بھی نہیں دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کو مختلف طریقوں سے تنگ بھی کیا جاتا ہے،ان پر جسمانی تشدد بھی کرتے ہیں۔پھر ان حالات سے تنگ ہوکر غریب لوگ اپنی بچیوں کی شادی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات چھوٹی اور معصوم بچیوں کی بڑی عمر کے آدمیوں کے ساتھ بھی شادی کروادیتے ہیں۔اس کے بعد بچیاں نہ جی سکتی ہیں اور نہ مرسکتی ہیں بلکہ ان کی زیست اجیرن بن جاتی ہے۔ایسی بچیاں آزادانہ فیصلوں سے بھی محروم ہوجاتی ہے، پھروہ کسی قسم کا آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک سنگین مسئلہ ہے،اس سے مزید متعدد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ان میں سب سے اہم مسئلہ بچیوں کی صحت ہے، کم عمری کی شادی سے بچی کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور پھراس بچی کی زندگی بھر صحت متاثر رہتی ہے۔کم عمری کی شادی کے بعد بار بار حمل اور بچوں کا پیدا ہونا بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم عمر میں شادی کرنے والی بچیوں کے بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں،ان کے بچے کمزور اور بعض اوقات بیمار پیدا ہوتے ہیں،ایسی صورت میں کم عمرمیں شادی کرنے والی بچیوں کےلئے مسائل اور پریشانی کا ایک نیا اور ختم نہ ہونے والاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔بچوں کے علاج پر کافی رقوم خرچ ہوتی ہیں جو کہ غریب افراد کے بس سے باہر ہوتا ہے، وہ علاج معالجے کےلئے قرض لینے پر مجبورہوجاتے ہیں اور بعض افراد سود پرقرض لیتے ہیں،پھر ان کےلئے قرض یا سود کو اُتارنا ناممکن ہوجاتا ہے۔اس سے ان کےلئے مزید پریشانیاں اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ایسے افراد کے گرد تاریکی اور اندھیرے کا سماں ہوتا ہے،جہاں ہر طرف تاریکی اور اندھیرا ہو، وہاں کچھ ایسی شخصیات بھی سامنے آجاتی ہیں ،جو مشعل راہ کاکام کرتی ہیں اوراقوام کی رہنمائی کرتی ہیں، ان شخصیات کی فہرست میں نمایاں ممتاز سماجی شخصیت محترمہ ثمینہ نذیر صاحبہ ہیں۔محترمہ ثمینہ نذیر اور پودا کی ٹیم کی کاوشوں سے صوبہ سندھ میں شادی کی عمر کم ازکم اٹھارہ سال مقرر ہوئی ۔ علاوہ ازیں محترمہ ثمینہ نذیر اور پودا کی ٹیم صوبہ پنجاب میں بھی کوشش کررہی ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی شادی کی عمر کم ازکم اٹھارہ سال مقرر ہوجائے ۔ مزید بحراں محترمہ ثمینہ نذیر اور پودا کی ٹیم صوبہ پنجاب بھر میں مختلف تقریبات اور سرگرمیوں کا انعقاد بھی کراتی ہیں تاکہ لوگوں میں شعور و آگہی پیدا ہوا، لوگ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند ہوں۔ یقینا جب افراد ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند ہونگے تو معاشرے اور ملک میں مثبت اور خوشگوار تبدیلی آئیگی۔ہم سب کو صحت مند ، خوشحال اور خوش گوار معاشرے کےلئے تگ و دو کرنی چاہیے۔