میرا ایک بہترین دوست مجھے اکثر سمجھاتا بجھاتا رہتا ہے، میری کالم نگاری کا سب سے۔بڑا نقاد۔ لیکن انتہائی مخلص۔۔ کل مجھ سے اچانک ایک فرمائیش کر بیٹھا۔ بولا۔کالم تو میں لکھتا ہوں اور وہ پڑھتا بھی ہے،، کہا ہمت ہے تو ایک۔ بے لاگ۔ سا کالم زرا اپنے اس پیارے ملک پاکستان کے آجکل حالات پر بھی لکھ کر دکھا¶؟ جواب دیا،،،رہنے دو بھائی لکھنے لکھانے والے حالات ٹھیک نہیں ہیں، بڑے بڑے پنڈت لکھاری اپنی قلم دوات الٹا کر یا تو بچی کھچی کتابیں پڑھ رہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر ہلکی پھلکی موسیقی یا لطیفے سنتے ہیں، لیکن اس ظالم کا پھر بھی اصرار تھا کہ وہ قلم ہی کیا کہ جو صرف خوشامدی اشعار لکھے! وہ زبان ہی کیا جو ظالم اور ظلم کے خلاف بولے یا آواز حق بلند نہ کرے۔
دوستو! آپ اکثر مجھ سے اتفاق فرمائیں گے کہ ہمارے ملک میں اسوقت کوئی قانون کوئی قاعدہ نہیں ہے اور، اگر کہیں ہے بھی تو، وہ صرف اور صرف غریب لاچار مڈل کلاس یا کمزور طبقے کی گردن دبوچنے کے لیئے موجود ہے۔ جمہوریت برائے نام بلکہ کسی حد تک اپنے ہی لالچی اور خود غرض قسم کے جمہوری ٹھیکیداروں کے ہاتھوں دھکے کھا رہی ہے اور عملاً یہاں ایک ون مین شو چل رہا ہے۔ صدر، وزیر اعظم،وزیر مشیروں کا لا¶ لشکر سب کے سب بے بس ہیں۔نادیدہ ہاتھوں میں تمام حکومتی اداروں کا پورے کا پورا کنٹرول اور اختیارات سب اسی کی مٹھی میں بند ہیں۔ ویٹو پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ بظاہر اسے یہ اختیار نہ تو قانون کی رو سے عطا ہوا ہے نہ ہی آئین اسے اسکی اجازت دیتا ہے۔ ملک کے مجموعی حالات پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے سارے ادارے اسوقت لاغر، کمزور اور قریب المرگ حالت میں موجود ہیں۔ یہ نادیدہ ہاتھ کسی قانون کو نہیں مانتے، قانون وہی ہے جو انکی زبان سے نکلے، قاعدہ وہی ہے جسے وہ ایجاد کریں۔ حسب منشاءجہاں دل چاہے یہ قانون کو موم کی ناک کی طرح مروڑ ڈالتے ہیں، عمران خان کی بے پناہ مقبولیت سے خوف زدہ لالچی اور خود غرض قسم کے ہمارے موجودہ حکمران،،یہ تو اتنے گر چکے ہیں کہ حصول اقتدار کیلئے یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یہ ہر قسم کی دلالی سے نہیں ٹلتے اور غلاموں کی طرح رات دن چاپلوسی کرتے تھکتے نہیں۔ انکا پہلے نعرہ ”ووٹ کو عزت دو” سے ترقی پاتا اب تبدیل ہو چکا ہے اور، رہے ایوان عدل کی اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان قانون و آئین کے ہمارے محافظ۔۔افسوس صد افسوس، جن کو آج ہر بے انصافی ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا تھا، وہ اسوقت انتہائی کمزور اور افراتفری کا شکار ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور اپنی عزت و وقار کا اپنے ہاتھوں جنازہ نکالنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ باقی رہا طبقہ پیروں فقیروں اور ملے ملاوں کا، ملک جائے بھاڑ میں انکی بلا سے، اکثریت انکی اپنی روایتی خرمستیوں، بد مستیوں، قوالیوں دھمالوں، دیگوں، پکوانوں نذر نیاز اور نذرانوں کی وصولیث میں مگن اپنی اپنی گدیوں، پیر خانوں،خانقاہوں، لنگر خانوں اور جماعت خانوں کی حفاظت اور اپنے اپنے حصے کا اقتدار، حرام حلال حلوے مانڈے کیلئے کسی بھی حد تک اطاعت و فرمانبرداری کیلئے کسی عورت کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کو بھی تیار بیٹھے ہیں اور ادھر ایک کونے میں رجیم چینج سازشیوں کا ایک بڑا ہم صلاح و مشورہ کار، کاٹھ کا گھوڑا، نام نہاد اپوزیشن لیڈر ۔۔راجہ رسالو۔۔ اپنی بے توقیری پر اپنے گنجے سر کو ناخنوں سے کریدتا کبھی دائیں اور کبھی بائیں دیکھتا ہے، کہ اسکے ساتھ ہونے کیا جا رہا ہے۔ کہتا ہے جن کیلئے اپنی عاقبت اپنی شہرت کو دا¶ پر لگایاوہ اسے منہ لگا نا نہیں چاہتے، جن کے لئیے وہ اپنے مرکز سے راندہ درگاہ ہوا انہیں انکا نام تک بھول چکا ہے۔خیر جیسے اوپر بیان کیا گیا، ایک عام شریف آدمی کیلئے اسوقت ہر طرف گھٹن اندھیرا اور ایک انجانے خوف کا راج ہے۔ نہ جانے کس وقت کس پر کونسی اور کتنی بڑی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑے، سب لوگ اس سے خوف زدہ ڈرے اور سہمے ہوئے کسی اچھے وقت کے منتظر اوپر اپنے اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھ کر اس ملک کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کا یہ حال ہے کہ یہاں جسکی زرا سی بھی زبان کھلتی ہے، کاٹ دی جاتی ہے،ہلکی سی آواز دبا دی جاتی ہے، طاقت کے نشے میں بدمست حاکم کسی کی نہیں سنتے،بنیادی آئینی حقوق پا¶ں تلے روندے جا رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑایا اور عورتوں بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اٹھا لیا جاتا ہے اور بولنے والوں کو غائب کروا دیا جاتا ہے۔ ہر روز کوئی نیا بیانیہ، جھوٹا اور من گھڑت افسانہ گھڑا جاتا ہے جو خیر سے ہمارے بزدل ، خود غرض لالچی اور بکے بکائے الیکٹرانک میڈیا پر پیش تو کر دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہر ڈرامہ پہلے روز ہی ایک ڈبہ فلم کی طرح فلاپ ہو جاتا ہے۔ یہ لاکھ جتن کرتے ہیں لیکن انکے جھوٹ کا یہ سودا گل سڑ تو جاتا ہے لیکن ۔چھٹاکی۔ بھر بھی نہیں بکتا۔ رہے میڈیا کے آٹے میں نمک برابر مالکان یا جراتمند اینکرز جو آئین،قانون یا آزادی رائے پر یقین رکھتے ہیں یا تو انہیں پیمرا کے ذریعے بند کرا دیا جاتا یا فوراً آف ائیر کروا دیا جاتا ہے۔اسکی بدترین مثالیں، نڈر اور بے باک صحافی ارشد شریف کو مار یا مروا دیا جانا اور بے چارے عمران ریاض کی دو ماہ سے تو کوئی خیر خبر ہی نہیں ، اسی طرح کی درجنوں آوازیں بند کرا دی گئی ہیں اور لاتعداد لکھنے لکھانے والے، بولنے سننے سنانے والے صحافی حضرات دوسرے ممالک کو ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں؟ آخر کیوں کیا یہاں سچ بولنا کوءجرم ہے، کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں یا یہ کوئی بنانا ریپبلک ہے ۔ ؟ قارین کرام! ہمارا ملک جب سے وجود میں آیا ہے حصول اقتدار کی یہ جنگ روز اول سے جاری ہے۔ ہمیشہ سے طاقتور طبقہ وقت کے ہر حکمران پر حاوی رہا ہے، ہر دور کے سپر مینوں کی اپنی ہی ایک دنیا تھی، طاقت کے حصار کو محفوظ تر بنانے کیلئے اسکے اردگرد وہ کبھی بنیادی جمہوریتوں کا جال بنتے تو کبھی اسلامی نظام یا ایک خوشحال پاکستان کے خواب دکھائے جاتے۔ لیکن کیا یہ ملک صرف ان کے حق حکمرانی کےلئے بنایا گیا تھا یا قاید اعظم کے خواب کے مطابق یہ ملک عام جنتا کی خاطر لاکھوں قربانیوں کے عوض حاصل کیا گیا تھا؟ قیام پاکستان یا حصول پاکستان میں حضرت قائد اعظم کے ساتھ تو ان کا کوئی کردار نہ تھا جسکا کوءقابل ذکر کردار ہمیں آج تک ہماری تاریخ میں پڑھایا گیا ہو۔ لیکن بدقسمتی دیکھئیے کہ یہاں ہمیشہ سے حکمران آتے رہے، بے عزت و بے توقیر کر کے گھروں کو بھجوا جاتے رہے، کچھ کو زندانوں اور کچھ بد نصیبوں کو تو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا۔ ہماری یہ بھی بدقسمتی کہ ہمارا قائد بھی آخری وقتوں بستر مرگ پر حسرت و یاس کی تصویر بنا رہا۔ کس طرح اس نے آخری سانسیں لیں، تاریخ کے بند اوراق اب کھلنا شروع ہو چکے ہیں اور بہت سے رازوں سے پردے اب آہستہ آہستہ سرکنے لگے ہیں۔ بس بہت جھوٹ ہو چکا لیکن اس کو آج رہنے دیں۔ چلو یہ کہانی پھر سہی۔ حضرت قاید اعظم کے بعد کافی عرصہ تک ایک خلا رہا، پھر آمریت کی گود سے ایک قائد عوام نکلا جسے عوام نے فرعون کے گھر میں موسی سمجھا لیکن افسوس وہ بھی آدھا سچ نکلا۔ وہ بھی جب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا تو اسکے پیروں کو ہی کاٹ ڈالا گیا۔اور ابھی ماضی قریب میں بھی ایک سچا اور مخلص لیڈر عمران خان کی صورت میں دیکھا گیا، لوگوں نے اندھا دھند اس پر اعتماد کیا، دور اسکا بھی کوئی خاص مثالی نہ تھا، لیکن اپنے ملک اور عوام کے ساتھ انتہائی مخلص ۔ اسے بھی ہمیشہ کی طرح نشان عبرت بنانے کا مکروہ دھندہ آجکل پورے عروج پر ہے۔ اپنے دور میں وہ گرتے پڑتے، سازشیوں اور خوشامدیوں میں گھرا ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ اپنے ملک کیلئے کرنا چاہتا تھا لیکن طاقتور طبقہ نے روز اول سے اسے ہلنے تک نہیں دیا، نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہ بھی اقتدار سے معزول اور اپنے آبائی گھروں میں آجکل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ بغیر کسی عملی جدو جہد۔کے کسی بڑے آفاقی معجزے کا منتظر ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام آدمی جائے تو کہاں جائے؟ جن کے پاس کچھ ہے وہ تو لائنیں لگاتے اس ملک کو چھوڑ چھاڑ کر یورپ اور امریکہ جا رہے ہیں لیکن جن کا کوئی آسرا کوئی سہارا نہیں ہے وہ بے چارے کیا کریں ؟ کدھر جائیں؟ کیا وہ بھی پنڈی والے مسعود میاں کی طرح گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کر لیں؟یا سری لنکن عوام کی طرح اپنا۔میٹر گھما۔ کر اپنا کھویا ہوا حق ہر جابر و غاصب حکمرانوں سے چھین لیں یا پھر ایک محکوم اور غلاموں کی طرح اپنی آزادی، خودداری اور خودمختاری کو چھوڑ چھاڑ کر وہ بھی وقت کے ان فرعونوں کے آگے سجدہ ریز ہو کر ان جھوٹے خدا¶ں کی پوجا پاٹ شروع کردیں۔ قارئین کرام بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ آج واقعی حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ یا تو سری لنکا کی طرح لوگ اپنا حق حکمرانی چھین لیں یا پھر سچ کو جھوٹ سمجھ کر ظلم کے اس نظام کے آگے لیٹ جائیں کیونکہ یہ ظالم سچ بولنے والے کو مارتے بھی ہیں اور ننگا کر کے ویڈیوز بنا کے سر عام رسوا بھی کرتے ہیں اسلئے یا تو جابر اور ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا جائے یا آئندہ کبھی سر اٹھا کر بات نہ کرنیکی یقین دہانی کرواکر ایک خاموش تماشائی کی طرح اپنے ملک کو ان، بیوپاریوں کے ہاتھوں چپ چاپ لٹتا دیکھتے رہیں ۔ ان میں سے راستہ کونسا درست، سچا اور کون سا غلط ہے، یہ فیصلہ عوام کا ہے۔
کالم
کوئی بتائے کہ ہم کدھر جائیں؟
- by web desk
- جولائی 20, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 816 Views
- 2 سال ago
