کالم

کپتان کا امریکہ کے خلاف بیانئے پر یو ٹرن

اگر ہم غور کریں اور تھوڑاسا ماضی قریب میں جائیں تو عمران خان کی موجودہ agititioneryسیاست ، کپتان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عہدے اُتارنے کے بعد ایک جلسہ عام میں امریکی اہل کار "ڈیوڈ لو "کے سازشی مراسلے سے شروع ہو رہی ہے۔ جس میں عمران خان فرماتے ہیں کہ امریکہ نے سازش کرکے اُسکو اقتدار سے ہٹایا۔ وہ بار بار اس مراسلے کو جلسہ عام میں لہرا لہرا کر عوام کو دکھاتے اور ہلا تے رہے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ امریکی دھمکی آمیزخط ہے، جسکے ذریعے امریکہ، شہباز شریف اور مقتدر اداروں نے مُجھے اقتدار سے ہٹایا ۔ وہ پبلک اجتماعات میںبار بار اس بات کا بھی اعادہ کرتے چلے آرہے تھے کہ وہ مرجائے گا مگر نہ تو وہ امریکہ کی ڈیکٹیشن لے گا اور نہ انکی غلامی قبول کرے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کارکنوں میں "absolutly Not”کا نعرہ زبان عام ہوگیا۔اور ساتھ ساتھ ہم” کوئی غلام ہیں” کا گانا بھی تحریک انصاف کے ہر فنکشن اور پروگرام کا حصہ رہا۔ اور تھوڑے وقت میںگاڑیوں،موٹر کاروں ، دیواروں اور گھرگھر ” "Absolutly Not کے نعرے دکھائی دے رہے تھے۔ اوریہاں تک کہ پی ٹی آئی کے نوجوان ورکروں نے Absolutly not اور ہم کوئی غلام کے ٹی شرٹ بھی زیب تن کئے۔عمران خان نے امریکہ دشمنی کو ہتھیار بناتے ہوئے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا دیا ۔ عوام بھی یہ سمجھ گئے کہ کپتان، امریکہ کا دشمن اول ہے۔ امریکہ دشمن بیانئے اور عوام میں مقبول نعرے کی وجہ سے خان کی مقبولیت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔حالانکہ کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا اپنی نا قص کارکردگی کی وجہ سے اتنی غیر مقبول ہو چکی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی پی ٹی آئی امیدوار” بیٹ "کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ ضلع صوابی میں صرف اسد قیصر کے چچا زاد عطا اللہ خان نے” بیٹ "کے نشان پر الیکشن لڑا۔باقی جتنے بھی امیدوار تھے وہ پی ٹی آئی کی نا قص کارکردگی ، بد انتظامی اور الیکشن میں ممکنہ ہارنے کے ڈر سے ” بیٹ "کے نشان پر الیکشن نہیں لڑے۔ عدم اعتماد میں ناکامی کے بعد کپتان نے امریکی ڈیوڈ لو کے مراسلے ، انکی حکومت گرانے اور سازش کہانی شروع کرنے کی وجہ سے کافی مقبول ہوگیاتھا۔ وطن عزیز میں امریکہ دشمنی کا بیانیہ اور چورن ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے ۔ مگر اس کے برعکس حال ہی میںخان نے امریکہ دشمنی، ڈیوڈ لو مراسلے سے یو ٹرن لیتے ہوئے بر طانیہ کے مشہور اخبار فنانشیل ٹائمز کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا”He no blamed the US and wants a dignified relation ship, if reelcted”کہ میں اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگانا نہیں چاہتا ، اگر دوبارہ منتخب ہوا تو وہ امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات رکھوں گا۔اُنہوں نے مزید کہا "As far as I am concerned , it is over. Its behined me”. جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے یہ مسئلہ اب ختم ہوگیا ہے اور میں نے اس مسئلے کو دفن کیا۔اگر ہم عمران خان کے چند مہینے پہلے اور موجودہ بیانیوں پر نظر ڈالیں تو اس میں حد سے زیادہ تضادات اورسنگین قسم کا یو ٹرن ہے۔عمران خان کے برطانیہ کے فنانشیل ٹائمز کے موجودہ انٹر ویو سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ تو کپتان امریکہ کی وجہ سے ہٹے ہیں اور نہ امریکہ اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا اس معاملے میں کوئی کردار ہے۔ بلکہ اس قسم کے نعرے سے کپتان نے پاکستانی عوام اور جوانوں کو ورغلا کر2023 کے عام انتخابات میں جیتنے اوروزیر اعظم بننے کا تہیہ کیا ہوا ہے ۔مگر ہمارے یہ جوان بھول رہے ہیںکہ عمران خان نے وفاق ، پنجاب ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں 3.5 سال اور خیبر پختون خوا میں 10 سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کچھ نہ کیا، تو اب کیا کرے گا ۔ بلکہ کپتان امریکہ دشمنی اور اسلام کارڈ استعمال کرکے پاکستانیوں اور بالخصوص جوانوں کے جذبات اور احساسات سے کھیل رہے ہیں ۔ میں اُن جوانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ وزیر اعظم جنکا آپ اتنے گرویدہ ہیں انہوں نے آپکے لئے کیا کیا؟۔ میں پاکستانی نوجوانوں اور عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ 2023 کے عام انتخابات میں ایسے لوگوں کو چُنیں جو آپ کے لئے کچھ کرسکے۔کسی بھی لیڈر اور پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے اس امیدوار اور پارٹی کو اچھے طریقے سے پرکھنے کی کوشش کریں۔ اور بغیر پرکھنے کے کسی کو منتخب نہ کریں۔کیونکہ غلط پارٹی اور قائد کو اقتدار میں لانے کے بعد ہم اسکے غلط پالیسیوں اور نا قص کارکردگی کو بھگتتے رہتے ہیں ۔ جوان کسی قوم کا بڑا آثاثہ ہوتا ہے اور انکو چاہئے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے رائے کو دیانتدار، ایمان دار اور سمجھ دار قیا دت کو مُنتخب کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri