کالم

کچرے سے اربوں روپے کی گیس

ajaz-ahmed

میں متبادل ذرائع توانائی کا ایک ا دنی طالب علم ہوں۔مختلف انجینیرنگ یونیور سٹیوں کے بی ایس سی اور ایم ایس انجینیرنگ کے طالب علموں کو میرے ذمے لگا دیا گیا تھا کہ ان طالب علموں کو متبادل ذرائع توانائی جس میں بائیو گیس، مائیکرو ہائیڈل پور پلانٹ ،ونڈ انرجی اور سولر انر جی شامل ہے انکو ان ٹیکنالوجیز اور اس سے متعلق تمام پہلو ں کی عملی تربیت دی جائے۔گذشتہ عرصہ پہلے ہم بائیو ما س یعنی کچرے ، گھاس پو ست سبزی اور پھلوں کے چھلکوں سے متعلق توانائی اور بجلی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ گجرانوالہ، فیصل آباد، کراچی ، حیدر آباد، پشاور، بنوں ، کوئٹہ اور سبی کے میونسپل کا رپو ریشنوں سے وطن عزیز کے ایک اہم اور قومی ادارے پاکستان انوائرومینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے جیکJICAا اور یو این ڈی پی نے جو اعداد و شمار اکٹھے کئے اس سے آسانی سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز کا ہر فرد روزانہ مختلف سر گر میوں سے 0.456 گرام کچرا پیدا کرتا ہے ۔ اور وطن عزیز کے اس کچرے میں 36فیصد یعنی کل گند کا 29549ٹن روزانہ ایسا گند پیدا ہوتا ہے جس سے بہترین قسم کی توانائی اور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ جو کچرا ہمارا گھروں ، گھروں کے باہر ندی نالوں، گلی کو چوں میں پڑا ہوا ہے اسکو بھی ممکنہ حد تک کم کر کے کئی مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔میں نے بھارت اور دوسرے ترقی یا فتہ ممالک کے تقریباً 4تحقیقی مقالے اور ریسرچ پیپرز پڑھے اور ان تحقیقی مقالوں اور ریسرچ پیپروں پر میری اور ان طالب علموں کی لمبی گفت وشنید ہو ئی اوراہم اور فکر انگیز گفتگو سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ وطن عزیز میں کچرے جس میں با لخصوص کچن ویسٹ یعنی کچن سے پیدا شدہ کچرہ یعنی سبزی تر کا ریوں کے چھلکے ، ہڈیاں وغیرہ شامل ہیں اس 30 ہزار ٹن گند پر 50 لاکھ 5 معکب فٹ بائیو گیس پلانٹ لگا کر 50 لاکھ خاندانوں اور 3کروڑ لوگوں کو 2.5 کروڑ کیوبک میٹر گیس دی جا سکتی ہے۔ اگر ہم ان 50 لاکھ بائیو گیس پلانٹوں کی لکڑیوں کے حساب سے انکی قیمت نکالی جائے تو وہ 726 ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ علاوہ ازیں ان بائیو گیس پلانٹوںسے ہم سالانہ ڈھائی لاکھ ایکڑ جنگلات کی کٹائی روکنے میں مدد دے سکتے ہیں۔اس 50 لاکھ بائیو گیس پلانٹوں سے ہم 8 کروڑ کلوگرام کاربن کی مقدار میں بھی کمی کر کے مختلف بین الاقوامی ایجنسیوں سے 30 ڈالر فی ٹن کے حساب سے کاربن کم کرنے کا54 کروڑ روپے ٹیکس بھی لے سکتے ہیں۔ اب جبکہ ایک دفعہ دوبارہ وطن عزیز میں بجلی لو ڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اگر ہم کچرے اور میونسپل ویسٹ پر مند رجہ بالا بائیو گیس پلانٹس لگائیں تو اس سے نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری کر نے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ اس سے ہمارے ملک میں وہ گند جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلتی ہے اُس کی کمی میں مدد ملے گی۔واقعی کسی نے صحیح کہا ہے کہ Garbage is goldکہ کچرا سونا ہو تا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے ایک تحقیقی ادارے میں کچرے اور گند سے گیس بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اور وہ اپنے یو نیور سٹی کے ہو سٹل کی گیس کی ضروریات با ورچی خانے کے ویسٹ یعنی کچن کے کو ڑے کر کٹ سے پو ری کر رہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 6 کلو گرام کچن ویسٹ سے 125 کلو گرام گوبر کے برابر بائیو گیس بنائی جا سکتی ہے۔لہٰذاءاب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں انفرادی طو ر پر ، ہماری حکومت اور غیر سرکاری اداروں کو کچن ویسٹ سے توانائی اور گیس پیدا کرنے پر بھر پو ر توجہ دینی چاہئے تاکہ ملک میں توانائی کی ضرورتیں پو ری ہوں اور دوسری طر ف وہ گند جو ہمارے گھروں، محلوں اور کو چوں میں پڑا ہوا ہے اور جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں انکا سد باب اور تدارک کیا جائے ۔ اب یہ ہماری اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس ویسٹ کو ضائع نہ کریں بلکہ اس سے بجلی اور کھانا پکانے کے لئے گیس پیدا کریں ۔ علاوہ ازیں اس سے جنگلات کی کٹائی میں مدد مل سکتی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے کچن گیس اور بجلی کا بل کم کرسکتے ہیں۔حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں پر تحقیق ہونی چاہئے تاکہ ملک میں گیس اور توانائی کی ضروریات کو پوری کی جاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri