پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمارا کاشتکار خوشحال نہیں، ایٹمی توانائی تو ہے مگر عوام بجلی کیلئے ترس رہے ہیں جبکہ جمہوریت کے گیت گاکر ذہنی عیاشی کرناہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ محض بیان بازی میں ہم سب سے آگے ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں مختلف انواع واقسام کے کھانے کیمرے کے سامنے سجاکر ہم ملک میں غذائی بحران کا رونا روتے ہیں عالی شان بنگلوں کے ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر ہم عوام کی غربت کے گیت گاتے ہیں اور نئی گاڑیوں کو سڑکوں پہ دوڑا کر دھول عوام کے آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے ہم ملک میں توانائی کے بحران کا ذکر زور وشور سے کرتے ہیں بین الاقوامی سطح کے سیمینارز میںیہ فلسفہ جھاڑتے ہیں کہ ملک عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر ملک کو غیر مستحکم کرنے کا ذمہ دار بھی ہم ہی ہوتے ہیں سٹیج پر فقہ واریت کے خلاف تقریر تو کی جاتی ہے مگر خود مقرر صاحب کسی نہ کسی فرقے کا ترجمان ضرور ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے پنجے بڑے پیچ دار ہیں اس نظام کے کردار ملکوں کو پھانستے ہیں ان پر جنگ مسلط کرتے ہیں اور دنیا میں بھوک اور غربت کے بیج بوتے ہیں سرمایہ پرستانہ نظام ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ دیتا ہے کیونکہ اس نظام کے جتنے بھی کردار ہوتے ہیں ان کو دانہ پانی یہ کمپنیاں فراہم کرتی ہیں ایک ایسٹ انڈیا کپمنی نے پورے برصغیر کو لوٹا حالانکہ برصغیر کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا آج یہاں کے عوام فاقوں پر مجبور ہیں برصغیر کا دیوالیہ ایک کمپنی نے نکال دیا اور آج سینکڑوں کمپنیاں قوموں کو نگل رہی ہیں سرمایہ کے حوس نے کروڑوں لوگوں کے جسموں کو بھوک کی وجہ سے پنجرے بنادیا ہے قوم کا دیوالیہ نکلتا ہے اور کمپنیوں کے مالکان کی توندیں باہر نکلتی ہیں اور ان کی گردنیں موٹی ہوتی جاتی ہیں ۔ اقوام کے وسائل لوٹ کر ان کو بھوکا مارنے کا پروگرام ملٹی نیشنل کمپنیوںکے پاس ہے اور مقامی ملوں اورکمپنیوں کے مالکان ان کے طفل بچے ہیں جو کبھی آٹے کا بحران پیدا کرتے ہیں اور کبھی چینی اور کبھی سیمنٹ کا اور سب سے بڑا سامراج بے گناہ انسانوں پر ہزاروں منوں کے حساب سے بارود پھینک کر ان کے وسائل اور منڈیوں پر قبضہ کر تا ہے اور ان پر خون کے بادل برساتا ہے جس کے نتیجے میں خون کی ندیاں بہتی ہیں، شہر اجڑتے ہیں اور ملک تباہ ہوتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام کا چمپئن امریکہ ہے اور یہ دنیا میں امن کا بھی علمبردار ہے اور اپنا شمار انسانیت کے رکھوالوں میں کرتاہے اسے یہ غم کھایا جارہا تھا کہ عراق میں ڈیڑھ سو کے قریب عراقی عوام کو قتل کیا گیا ہے اور اس غم کو ہلکا کرنے کیلئے اس نے ڈیڑھ لاکھ سے ذائد عراقیوں کو خون میں نہلادیا اور اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا ہے کہ اٹھارہ لاکھ سے ذائد افغانیوں کو جہاد کے نام پر قتل کرواکر کونسا امن قائم کیا گیا؟۔امریکہ موت کا سوداگر ہے او اسکی کی معیشت کا دارومدار اسلحہ کی فروخت پر ہے دنیا میں اگر امن ہوگا اور دوممالک آپس میں لڑینگے نہیں تو وہ کھائےگا کیا؟ یہی وجہ ہے کہ وہ قوموں کو لڑاتا ہے اور انسانیت کو تقسیم کر کہ شکار کرتا ہے اور جو اسکے راستہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو اسکو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے صدام حسین کا جرم یہ تھا کہ اس نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ©©©©©©©© ” عرب کا تیل عربوں کیلئے ہے“ اسی لیئے اسے سولی پر چڑھادیاگیا دنیا میں جنگ اور خانہ جنگی کی فضا امریکہ اور اسکے حواری ممالک مزاحمتی تحریکوں کو شکست دینے میں مصروف ہیں اس کی کوشش ہے کہ بحر ہند کو اسٹریٹجک تنازعات کا سٹیج اور ایشیا پر بالادستی کیئے لانچنگ پیڈبنادیا جائے اور اس مقصد کیلئے اس نے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں جدید اسلحہ سے مسلح کیا ہے اور مقدس عنوانات کے تحت وہ سامراجی عزائم کو پورہ کرنے کیلئے قومی املاک کو تباہ کرتے ہیں اور دینی تشحص کو پامال کرتے ہیں اور قومی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ عناصر قومی فورسز کو نشانہ کیوںبناتے ہیں ؟ اور ملک میں بڑے منصوبوں پر کام کرنے والوں کے راستے میں کیوں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ؟کیا کبھی انہوںنے سامراجی مفادات کو بھی نقصان پنچایا ہے؟کڑوا سچ یہ ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لبادے میں سامراجی کھیل کھیلا جارہا ہے اور سامراج چند مفاد پرستوں کو نوازتا ہے جن کاطرز حیات عوام کے ساتھ میل نہیں کھاتا ہے اور عوام بے چارے ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“کا نمونہ بنتے چلے جاتے ہیں زرعی ملک ہونے کے باوجود ستر فیصد زمینیں بنجر ہیں اور جو تھوڑا بہت حصہ کاشت ہورہا ہے اس کا طریقہ کار بھی غیر سائنسی ہے اور تسلط اس پر سرمایہ دار اور جاگیردار کا ہے اور عوام اسکے ثمرات سے دور ہیں جسکے نتیجے میں غربت، مہنگائی اور بھوک کو فروغ مل رہا ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام ملوں اور کارخانوں کو قومی تحویل میں لیا جائے اور ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرکے غریب عوام کی کمائی پر ہاتھ صاف کرنے والے مجرموںکو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ۔ اگر ان ملوں اور کارخانوں کو قومی تحویل میں نہ لیا گیا اور قوم کے مجرموں کو سزا نہ دی گئی تو سرمایہ داریت کی بھوک عوام کو نگل لیگی اور غریبوں کا خون ہوتا رہیگاجو کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا!۔