کالم

کھیل بھی پراناکھلاڑی بھی پرانے

وطن عزیز ہماری اپنی ناقاقبت اندیش پالیسیوںآئین اور قانون کو گھر کی لونڈی بنانے یکساں انصاف کی فراہمی کو مذاق بنانے کے باعث ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سامنے دلدل اور پیچھے گہری کھائی ہے،قدم بڑھاتے ہیں تو دلدل منہ کھولے ہمارا استقبال کرنے کو تیار کھڑی ہے پیچھے ہٹتے ہیں تو گہری کھائی ہمارا انجر بنجر کرنے کی منتظر ہے- ہماری حالت اس وقت پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی ہے- بقول شاعر
اک ہجوم غم وکلفت ہے خدا خیر کرے
جان پر نت نئی آفت ہے خدا خیر کرے
رہنماﺅں کو نہیں خود بھی پتا رستے کا
راہ رو پیکر حیرت ہے خدا خیر کرے
سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور ان کے کارکنان اپنے اپنے سیاسی مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں ملک وقوم کو درپیش مشکلات سے ان کا کوئی واسطہ ہے نہ تعلق ہے تبدیلی سرکار کے دور میں پٹرول بجلی گیس اشیا ضروریہ کی قیمتوں پر معمولی اضافے پر آسمان کو سر پر اٹھانے اور عوام کی محبت میں چیخ وپکار کرنے والے اقتدار میں آکر نہ صرف خود غریب کی سانسوں کی ڈور بند کرنے کےلئے بے تاب اور فعال نظر آئے بلکہ اس نیک کام کو سر انجام دینے کے بعد کم وبیش وہی تاویلیں اور دلیلیں بھی پیش کرتے رہے جو 75سال سے عوام سنتے چلے آرہے تھے- تحریک انصاف کی طرح شہباز شریف کی قیادت میںسابق اتحادی حکومت کا بھی یہی استدلال تھا کہ ہمیں یہ سب کچھ ورثے میں ملا ہے-ملک کو دیوالیہ پن کے خطرے سے بچانے کے لئے مشکل فیصلے کر رہے ہیں ۔ عمران خان کے دور میں مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالنے لانگ مارچ کرنے عوام کی محبت میں پیٹ پر پتھر باندھنے اور ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے نام پر مشکل فیصلے کرنے کی آڑ میں عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کرنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہماری قوم کو جلد بھولنے کی عادت ہے وہ ایسے کسی بھی مشکل فیصلوں کو دو چار مہینے میں بھول جاتی ہے یا پھر حکمران طبقات اسے کسی اور ایشو میں پھنسا کر بھول جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اس وقت مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی ایک بار پھر عوام سے ہمدردی اور مگرمچھ کے آنسو یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ خود کو انتہائی عقل مند اور قوم کو بیوقوف سمجھتے ہیں،چالیس پچاس پیچھے کی بات کا کوئی فائدہ نہیں جب چینی کی قیمت میں معمولی اضافے پر قوم نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ چھتر مارنے والوں کو تبدیل کرو اور پھر تبدیلی آ بھی گئی مگر قوم مطمئن نہیں ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک عوام مسلسل چھتر مارنے والوں کو بس تبدیل کرنے اور نئے چھتر مارنے والے لانے کا ہی مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے اور ان کی اس معاملے میں سنی بھی جاتی ہے ایک سال قبل بھی عوام کا یہی مطالبہ تھا اور آج بھی یہی مطالبہ ہے عوام کی یہ بات سنی بھی جانے والی ہے-الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں نئے انتخابات کرانے کا عندیہ دے دیا ہے توقع ہے کہ آئندہ تین’چار ماہ میں نئے چھتر مارنے والے آجائیں گے-
پاکستان اس وقت جس سیاسی ومعاشی بحران سے دوچار ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کی جاسکتی ہے آئندہ عوام کو چھتر مارنے کے لئے بر سر اقتدار آنے والے زیادہ رحم دل ثابت ہوں گے بس جو چیز اس وقت پانچ روپے کی مل رہی ہے وہ پندرہ روپے کی ہوجائے گی پٹرول اور تیل کی قیمتیں300 روپے فی لٹر سے زیادہ ہوگی’۔آٹا’ چینی’ دالوں اور دیگر اشیا خورونوش کے نرخ بھی عوام کی دسترس میں آجائیں گے اور وہ ایک بار پھر سڑکوں پر نئے مسیحا تلاش کر رہی ہوگی(سوری)نئے چھتر مارنے والوں کو ڈھونڈ رہی ہوگی یہ سلسلہ گزشتہ ساٹھ سالوں سے یونہی جاری ہے اور حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے آئندہ دس بیس سال بھی ساری رہے گا-ہر آنے والا سابقہ گنتی میں اضافہ کرکے انہیں چھتر مارنے کا سلسلہ آگے بڑھاتا رہے گا،اس سارے کھیل تماشے میں ملک کے98فیصد عوام کے جذبات، احساسات’ خواہشات سے کھیلنے والی دو فیصد اشرافیہ کو بے اختیار داد دینے کو دل کرتا ہے جو بڑی ذہانت کے ساتھ 75سال سے اس عوام کو زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں مصروف رکھ کر نہ صرف ان کا بلکہ ارض پاک کا بھی مسلسل استحصال کر رہی ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔قرضوں کی مے یہ پیتے ہیں’ اللے تللے یہ کرتے ہیں۔تجوریاں یہ بھرتے ہیں۔اربوںکھربوں کی جائیداد ان کی ہیں اور اس کی قیمت ملک کے عوام ادا کرتے ہیں- اگر کوئی اس دو فیصد اشرافیہ سے قرضوں کے استعمال بارے پوچھنے کی جرات کرے تو اس کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ سارے کس بل نکل جاتے ہیں، ملک میں انتخابات کے نام پر ڈرامہ نیا نہیں 2002 سے یہ ڈرامہ چل رہا ہے اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ نیا آنے والا حکمران ان کی تقدیر بدل دے گا تو موجودہ فرسودہ نظام کی موجودگی میں یہ محض خوش فہمی سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں-اقتدار پیپلز پارٹی’ ن لیگ یا تحریک انصاف میں سے کسی کے بھی پاس ہوا غریب کے لئے دن چھوٹے اور تار یک راتیں لمبی ہی ہوتی جائیں گی،عوام کو جھوٹے لارے لگانے’بڑے بڑے دعوے کرنےوالے والے اقتدار میں آکر ایک بار پھر وہی کچھ کریں گے جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں -عوام کی سانسوں کو بند کرنے کا سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک ان کے جسم وروح کا رشتہ منقطع نہیں ہوجاتا، پاکستان میں ایک بار پھر عام انتخابات کے انعقاد کا شور وغل ہے ملک کے تمام مسائل کا حل اسی کو قرار دیا جارہا ہے تجزیہ نگار،دانش اورصحافی اقتدار سے محروم سیاسی جماعتیں بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ آئین کے تحت 90 روز میں انتخابات کا انعقاد کروانا ہر ادارے پر لازم ہے بالکل بجا کوئی شک نہیں-مگر میں یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ کیا آئین میں ہر ادارے پر 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کو ہی لازم قرار دیا گیا ہے یا اس بے بس مجبور لاچار’بھوک وننگ کا شکار’ دو وقت کی روٹی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم 98فیصد عوام کے حقوق کے حوالے سے بھی اداروں پر بھی کوئی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں-اگر کی گئی ہیں تو پھر ان سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے- غریب کو وہ تمام بنیادی حقوق کیوں فراہم نہیں کئے جاتے جو آئین پاکستان نے ان کو دیئے ہیں؟ تعلیم’ صحت ودیگر سہولیات کی فراہمی کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ اگر ہے تو پھر کوئی بتائے کہ کیا ریاست یا اعلی عدلیہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کر رہی ہے،آئین پاکستان کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں کوئی چھوٹا بڑا نہیں اور کسی امیر کو غریب پر فوقیت نہیں دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آئین پاکستان کے اس حکم پر ملک میں عمل ہورہا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یکساں انصاف کی فراہمی کو تمام دنیا میں فوقیت حاصل ہے خود آئین پاکستان میں بھی یہی لکھا ہے بتائیں کیا پاکستان میں یکساں انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جارہا ہے جواب نفی میں ہوگا ملک انصاف یکساں نہیں دوہرے معیار کا حامل ہے ، بالادست طبقات کیلئے علیحدہ اور غریب آدمی کیلئے انصاف کا معیار باالکل الگ ہے- غریب جیلوں میں سڑتا رہتا ہے اور بالادست طبقات کو رات کے اندھیرے میں بھی انصاف مل جاتا ہے،غریب آدمی دس منٹ لیٹ ہوجائے تو درخواست ضمانت خارج کردی جاتی ہے-دن دو بجے سے دو چار منٹ اوپر ہوجائیں تو معاملہ اگلے دن پر چلا جاتا ہے جبکہ بالادست طبقے کے فرد کی درخواست ضمانت پر عدالت نہ صرف شام گئے تک کھلی رہتی ہے بلکہ اس کو مواقع بھی فراہم کئے جاتے ہیں معاملہ مقبول شخصیت کا ہو تو پھر کیس رات کو بھی سن لیا جاتا ہے یہ ہے ہمارا انصاف کا معیار اور قانون کی حکمرانی- پاکستان میں آئین کی بالادستی’ قانون کی حکمرانی’ یکساں انصاف کی فراہمی کے تمام دعوے خوش کن الفاظ سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں حقیقت ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا چلن عام ہے،آئین’ قانون’ انصاف سب بالا دست طبقات کے ہاتھ کی چھڑی اور کلائی کے گھڑی بنے ہوئے ہیں اور غریب ان کے درمیان بری طرح پس رہا ہے- وہ فریاد کرسکتا ہے نہ احتجاج۔ کھیل اور کھلاڑی سب پرانے ہیں’ آز مودہ ہیں اور یہی کھلاڑی موجودہ فرسودہ نظام کے تحت آئندہ عام انتخابات میں بھی امیدوار ہوں گے- ایک بار پھر بڑے بڑے دعوے کئے جائیں گے غریب کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں نکالنے کی بات ہوگی’ نوجوانوں کو اپنے دام میں پھنسانے کے لئے نت نئی تر غیبات دی جائیں گی جبکہ بعض تو غریب کے لئے آسمان سے تارے تک توڑتے دکھائی دیں گے، پولنگ اسٹیشنوں پر ایک بار پھر غریب اچھے مستقبل کی امید کے ساتھ لائنوں میں لگ کر ووٹ ڈالے گا مگر اس کے بعد اس کے ووٹ کا جو حشر ہوگا وہ ابھی سے اپنے ذہن میں رکھ لے-موجودہ فرسودہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات غریب کے لئے خوشی کی نوید نہیں بلکہ مزید تباہی کا سامان لے کر آئیں گے- شعبدہ باز کامیاب ہوکر ایک بار پھر خود کوئی بھی قربانی دینے کے بجائے ملک کے مستقبل کے نام پر آپ سے قربانی مانگیں گے- خزانہ خالی ہے کا نعرہ ہر سو گونجے گا اور اس نعرے میں آپ مکمل طور پر ڈوبتے نظر آئینگے۔انتخابات آئینی ضرورت ہیں وقت پر ہونے چاہئیں مگر فرسو دہ انتخابی نظام کے تحت نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز’ وکلا تنظیموں’ عوام کی مشاورت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کے بعد وگرنہ ایسے انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں جو دو فیصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے