کالم

کہانی گئی مکھ کلہ گیا ٹھک

کچھ دنوں سے ہر کوئی ایک ہی سوال کرتا دکھائی دیتا تھا کہ کون بنے گا نیا چیف آف آرمی اسٹاف ۔پھر 23 نومبرکو صورتحال تھوڑی سی واضح ہو ئی جب سمری وزیراعظم ہاﺅس پہنچی کہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سیدعاصم منیر ہونگے ۔اپنے پیارے مہربان کا اسی روز پی ایم ہاﺅس سے فون آیا کہ ساڑھے گیارہ بجے آپ سے ملاقات کا وقت مقرر ہے ۔ تشریف لائیں۔ اپنے بار روم کے وکلا ساتھیوں سے کہا آج کی چائے آپ کے ساتھ نہیں پی ایم ہاﺅس میں پینے جا رہاں ہوں ۔ مسلم لیگ ن لائرز فورم کے مرکزی نائب صدر ایڈووکیٹ عابد عزیز راجوری بھی ساتھ جانے کو تیار ہوئے ۔ہم دونوں وقت مقررہ پر پی ایم ہاﺅس پہنچے ۔وہاں جس شخصیت کے پاس چائے کےلئے مدعو تھے وہ شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ سابق جج لاہور ہائی کورٹ اور سابق اٹارنی جنرل پاکستان رہ چکے ہیں ۔ آپ کا شمار ملک کے چند سینئر قانون دانوں میں کیاجاتاہے ۔سمارٹ خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں ۔ آپ کے مطلق مشہور ہے جس جج کے سامنے کھڑے ہو تے ہیں اکثر ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔ حکومتیں تبدیلی ہونے پر پیغام ملتے ہیں کہ پلیز انہیں اٹارنی جنرل نہ لگایا جائے ۔اس لئے کہ عدالت کو سو الات کرنے میںمشکل پیش آتی ہے ۔جس دور میں جب آپ پاکستان کے اٹارنی جنرل تھے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کوئٹہ میں وہاں کے حالات کی وجہ سے سپیشل بنچ تشکیل دے رکھا تھا ۔ اس بنچ کے بننے کے ایک روز قبل میڈیا پر بریکنگ نیوز چلی کہ بلوچستان جل رہا ہے اور حکومت کو اس کی فکر نہیں ۔ وزیرداخلہ نے اٹارنی جنرل کو سیکورٹی کے خطرات کے پیش نظر بلوچستان جانے سے منع کر رکھا تھا ۔ مگر جب یہ بریکنگ نیوز چلی توآپ نے جان کی پرواہ کئے بغیر وزیر داخلہ سے کہا میںکل اس بنچ میں کوئٹہ پیش ہونے جا رہااہوں ۔ نڈر اٹارنی جنرل نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسرے روزاس بنچ کے سامنے اچانک پیش ہوئے۔ ججز نے انہیں دیکھ کر حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوئے کہا ہم نے تو آپ کو پیش ہونے کا نوٹس نہیں دیا ۔ کہا کل آپ کی ہی بریکنگ نیوز پڑھ کر پیش ہونے کا فیصلہ کیا تھا کہ دیکھ سکوں کہ بلوچستان کہاں جل رہا ہے ۔میں یہاں آگ بجانے آپ کے ساتھ کھڑا ہونے آیا ہوں۔ یہ درست ہے کہ کہ ججز آپ کی موجودگی سے پریشان ہو جاتے ہیں ۔جی ہاں یہ ہم سب کے ہر دلعزیز سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قاد صاحب ہیں ۔آپ سے سبھی واقف ہیں ۔ نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سیدعاصم منیر کی سمری جب وزیراعظم ہاﺅس پہنچی تو اسی روز اتفاق سے ہم بھی عرفان قادر صاحب کے آفس میں چائے پی رہے تھے ۔ گرم گرم چائے کے ساتھ گرم و گرم موضوع پر عرفان قادر صاحب سے موجودہ حالات پر باتین تبصرے آمنے سامنے بیٹھ کر سنے کو ملے ۔ آپ نے بتادیا کہ سمری وزیراعظم صاحب کے پاس پہنچ چکی ہے۔ کل تک چیف آف آرمی سٹاف کی سمری پر صدر پاکستان دستخط کر دیں گے ۔یہ بتاتے ہوئے آپ کا چہرہ پر سکون اور ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔کہا اس لئے کہ صدر کا کام دستخط کرنا ہے مشورہ کرنا دینا نہیں ۔یہ باتیں سن کر خوشی خوشی واپس بار روم میں آئے جبکہ بار میڈیا پر ہیجان نمایاں تھا۔ عمران خان کہہ چکے تھے کہ ہم آئین و قانون کے مطابق صدر پاکستان کا کھیل کھیلیں گے ۔نئی صورتحال پیدا کریں گے ۔مگرآئین یہ بھی بتاتا ہے صدر بننے کے بعد صدر کسی ایک جماعت کے صدر نہیں رہتے ۔ مگر اس کے باوجود سمری ملتے ہی صدر عارف علوی صاحب وزیراعظم کے طیارے پر لاہور عمران خان سے مشورہ کرنے چلے گئے جب کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چائیے تھا ۔سمری ملتے ہی سائن کر دیتے تو عزت میں اضافہ ہوتا ۔ اس کشمکش میں 24نومبرشام چار بجے کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل نے عرفان قادر صاحب سے اسی سمری کے حوالے سے سوالات کئے ۔ عرفان قادر نے بطور قانون دان کے بتایا کہ صدر صاحب کا کام مشورہ کرنا نہیں دستخط کرنا ہے ۔انشاﷲ صدر صاحب جلد سمری پر دستخط کر کے اپنا فرض نبھائیں گے۔ لگتا ہے آپ کا یہ تبصرہ صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے سنا اور پسند کیا ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعدقوم کو بریکنگ نیوز سننے کو ملیں کہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی سمری پر صدر پاکستان نے دستخط کر دئے ہیں ۔ کہانی گئی مکھ کلہ گیا ٹکھ ۔ عرفان قادر صاحب جوڈیشری اور وکلا میں ہی ہر دلعزیز نہیں اپنے موکلوں کے بھی ہیرو ہیں۔آپ کے ایک موکل نے جس طرح بلانئنڈ چیک دے کر عزت سے نوازا ایسی عزت کسی کو بہت کم نصیب ہوتی ہے ۔ یہ خط وکلا کمیونٹی کےلئے بھی قابل فخر ہے ۔ اس لئے اس خط کو اپنے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں ۔کلائنٹ لکھتا ہے۔ اسلام و علیکم ۔ اپنے مقدمے کے سلسلے میں آپ سے ملاقات ہوئی آپ کی شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا۔ آپ جیسے لوگ دنیا میں کم ہیں ۔ آپ کا گزارا کیسے ہو گا اس دنیا میں ۔مجھے تو آپ اس ماحول کے آدمی ہی نہیں لگتے یا تو آپ جسٹس بن جائیں اور اختیارات مکمل طور پر آپ کے ہاتھ میں ہوں اور آپ انسانیت کی خدمت کر سکیں ورنہ اتنی لیاقت اور محنت کے باوجود جب نالائق لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو بہت ڈپریشن ہوتی ہے ۔ انسان بہت کڑھتا ہے ۔ گو کہ ا ﷲ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے ۔ اور کوئی بھی ا ﷲ کا فیصلہ ہمارے لئے بہتر ہوتا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا کہ اس میں کیا بہتری ہے۔ا ﷲ آپ کے علم زور بیان اور عزت میں اور اضافہ کرے ۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ آپ کی شخصیت سے ہر بندہ متاثر ہے ۔ اﷲ آپ کو بہت عزت دے گا۔ میں اس خط کے ساتھ منسلک ایک چیک بھی بھیج رہا ہوں ۔ آپ اس میں جو رقم لکھیں گے یہ میری خوشی ہو گی ۔ جو رقم لکھیں مجھے بتا دیں ۔ آپ نے میرے کیس میں جو محنت کی اور جتنی اچھی پرفارمنس دی میں اس سے بہت مطمئن ہوں ۔ خدا گواہ ہے میں آپ کی محنت اوراس مقدمہ میں آپ کی کوشش سے بہت مطمئن ہوں ۔اﷲ آپ کو خوش رکھے ۔آپ کے گھر پر جب بھی فون کیا اور بھابی سے بات ہوتی تو ان کا فون پر رویہ اتنا اچھا ہوتا اور گفتگو اتنی شائستہ ہوتی تھی دل سے دعائیں نکلا کرتی تھیں ۔ آپ مجھے ہمیشہ یاد رہے گے۔ الطاف محمود 01=07-2002ن یہ خط لکھ کر ہم سب کے جذبات خیالات کی عکاسی کی ہے ۔ مجھے توآپ کی کال بیک کرنے اور میسج کا جواب دینے اور کھانے پلانے کی خوبی بہت ہی اچھی لگتی ہے ۔دعا ہے اﷲ آپ کو چشم بد سے بچائے ، ِ صحت اور عمر دراز دے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri