کالم

کہاں ہو تم ….چلے آو¿؟

وہ جو چلے جاتے ہیں۔۔پتہ نہیں کہاں چلے جاتے ہی؟ لگتا ہے جہاں وہ چلے جاتے ہیں، وہ کوئی یکطرفہ ٹکٹ لیتے ہیں، جہاں سے پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، وہ ساری زندگی جس جگہ اٹھتے بیٹھتے، محفلیں سجاتے رہے،، اچانک وہ ایسے اٹھ کر چلے جاتے ہیں جہاں سے واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھتے لیکن جانے والوں کو کون سمجھائے کہ تم تو چلے گئے، اگر ایک بار تم واپس مڑ کر دیکھ لیتے بعد میں جو ویرانیاں یہاں چھائی ہیں تو وہ خود بھی گھبرا سے جاتے۔ جانے والوں کو تو شاید کوئی منزل نظر آتی ہو گی، کوئی جنت کوئی ہرے بھرے باغات اور انکے نیچے بہتی خوبصورت نہریں،لیکن کوئی ہمیں بھی تو بتائے کہ ہم کہاں جائیں؟ کبھی ہم دائیں کبھی بائیں، کبھی آگے کبھی پیچھے دیکھتے ہیں، ہر آہٹ پہ یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ابھی لوٹا کہ ابھی آیا اور دل ہے کہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اس گھر رونق اور محفل کی جان اب وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہاں سے چلا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہر ایک نے آخر اپنے مالک کے ہاں ہی لوٹ کر جانا ہے۔ موت ہر ایک کو آنی ہے، لیکن موت کے جو اثرات ہوتے ہیں کسی نے کبھی دیکھے ہیں اپنی آنکھوں سے؟ کبھی ٹوٹے دلوں کو زار و قطار کبھی روتے دیکھا ہے کسی نے؟ آنسو ہیں کہ رکتے نہیں ۔ سسکیاں ہیں کہ تھمتی نہیں۔ سچ ہے ہجر فراق کی راتیں بے حد لمبی کالی اور دن مہینوں سالوں سے ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسی شاہراہِ وچھوڑاہے کہ جس پر کوئی بھی واپسی کا یو ٹرن ہی نہیں بنایا گیا؟زندگی میں لاتعداد دوستوں یاروں عزیر و اقارب، ماں باپ اور اپنے پیاروں کو جدا ہوتے دیکھا لیکن قانون قدرت سمجھ کر چپ سے ہو لیتے ہیں، ماضی قریب میں عزیزہ سدرہ،عاتکہ بیٹی، ڈی ایس پی گوشی، معصوم جواد،بزرگ دوست اور عظیم شاعر مضطر فیروز پوری، پروفیسر عبد الکریم قاسم اور بھائی عبدالمجید ناصر کے بچھڑنے کے غم کو جھیل ہی رہے تھے کہ27مئی کو میرا پیارا بھائی نصیرالدین اچانک ہمیں روتا چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ بس معمولی صحت خراب ہوئی ، ڈاکٹرز کو دکھایا گیا، لاتعداد ٹیسٹ کروائے، لیکن چلتا پھرتا، باتیں کرتا بولتا، گپ شپ لگاتا ہمارا پیارا بھاءہر گزرتے لمحے ہمارے ہاتھوں سے پھسلتا رہا۔ بڑے بڑے ڈاکٹر صرف تسلیاں، پرچیاں اور نت نئے ٹیسٹ لکھ کر دیتے رہے لیکن انکی رپورٹس کے آنے سے قبل ہی وہ اپنے خوبصورت خاندان کو داغ مفارقت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی انگلی منزل کو روانہ ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔نصیرالدین صرف میرا عزیز، میرے بہنوئی ہی نہیں وہ میرا اچھا دوست بھی تھا،لیکن سب سے بڑھ کر وہ ایک راست باز مسلمان اور سچا عاشق رسول بھی تھا، میں آج جب کہ ہر طرف گناہوں کی بستیوں کی بستیاں آباد ہیں، اس پر آشوب دور میں بھی اگر یہ کہوں کہ وہ ایک عابد وزاہد انسان تھا۔ تو بالکل درست ہو گا۔ گورنمنٹ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے صرف اللہ ہی سے ”لو“لگا لی تھی۔ اپنا گھر، مسجد یا اپنے عزیز و اقارب کی خیر خیریت دریافت کرنا۔ کوئی جنازہ نہیں جو اس نے اپنے کسی دوست عزیز کا چھوڑا ہو، چاہے کتنا ہی لمبا سفر کرنا پڑے۔ بیمار پرسی عبادت سمجھ کر کرتا۔ محکمہ زراعت حضرو میں ساری تعیناتی گزاری ۔ آہ ۔ایک باوقار اور ایماندار دوست ہم سے بچھڑ گیا۔ اور وہ بچھڑا بھی کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی وہ شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی بخشش فرمائے اور انکی اگلی تمام منازل آسان فرمائے۔ آمین ۔ایسے کربناک درد بھی وہی دیتا ہے اور پھر وہی تو ہے جو صبر، حوصلہ اور برداشت جیسی نعمت سے بھی ہمیں نوازتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے یہ دنیا تو ایک مسافر خانہ ہے، لوگ آتے اور آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہاں سدا بادشاہی میرے اللہ ہی کی رہے گی۔
بیاد رفتگان، پیر سید نصیرالدین نصیر کے چند اشعار کے بعد خدا حافظ:-
سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشنا کا پاس تھا ،وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے چاند کی ،جو تہہ مزار چلا گیا۔
جسے میں سناتا تھا دردِ دل وہ جو پوچھتا تھا غمِ دروں
وہ گدا نواز بچھڑ گیا ،وہ عطا شعار چلا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے