ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کے بلوں میں اضافے کو لے کر احتجاجی مظاہرو ں کا سلسلہ جاری ہے، سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں خیر کا کون سے پہلو ہے ، بجلی کے بلوں میں اضافہ پر عوامی غصہ اپنی جگہ مگر کئی علاقوں سے ایسی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ بعض شرپسند گرڈ اسٹیشن پر حملے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، آسان الفاظ میں یوں کہ تخریب کار عوام کو سرکاری املاک پر حملوں کےلئے اکسا رہے ہیں، اس پس منظر میں قوم کوایسے شیطانی صفت عناصر پر کڑی نگاہ رکھنےکی ضرورت ہے جو احتجاج کے نام پر امن وامان خراب کرنے کے درپے ہیں، بطور قوم نہیں بھولنا چاہے کہ ہمارے مسائل ہمارے وسائل سے بڑھ چکے، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم ہو یا آج نگران حکومت سب ہی کو ایسے فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں جس سے بجا طور پر عوام کی مشکلات بڑھ چکیں، مگر سوال ہےکہ کیا ہمارے پاس درپیش مسائل کا کوئی متبادل حل ہے، حقیقت یہ ہے کہ نگران حکومت کی جانب بجلی بلوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کےلئے سنجیدگی سےغور کیا جارہا ہے، وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا دوٹوک انداز میں کہنا ہے کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ، ادھر نگران حکومت کی جانب سے انسداد بجلی چوری فورس تشکیل دینے کی بھی توقع ہے، سرکار نے یہ بھی واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ بلوں کی عدم ادائیگی کو بھی بجلی چوری ہی تصور کیاجائےگا، ایک تجویز یہ ہے کہ بجلی کے موجودہ بلوں میں اضافہ کو موسم سرما تک ملتوی کردیا جائے،عام آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ نگران حکومت کا مینڈٹ کسی طور پر بڑے فیصلہ کرنا نہیں،اس کی بنیادی زمہ داری تین ماہ میں الیکشن کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنا ہے۔اب پوچھا جاسکتا ہے کہ عام صارف اپنے بجلی کے بل کو کیونکر کم کرسکتا ہے بطور قوم ہمیں تمام تر زمہ داری حکومت پر ڈالنے کی بجائے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ مثلاً ہم میں سے ہر ایک کو سورج کی توانائی بھرپور استفادہ کرنا ہوگا، ہر خاص وعام کو اس روش سے تائب ہونے کی ضرورت ہے کہ بیشتر بازار دن 12 یا پھر 1 بجے کھلیں اور کم وبیش اسی وقت بند ہوں،ایک معاملہ یہ ہے کہ ہمیں گھر میں الیکڑانکس کی اشیاءاستعمال نہ کرنے کی صورت میں مکمل بند کرنا ہوں گی، مثلا ٹی وی اور اے سی ریمورٹ کنڑول سے بند کرنے کے بعد بجلی استعمال کرتا رہتا ہے جب تک سوئچ آف نہ کیا جائے۔ موبائل فون کے چارجر، ٹی وی پلگ اور دیگر برقی مصنوعات ہر وقت معمولی مقدار میں ہی سہی بہرکیف بجلی کا خرچ بڑھاتے ہیں جس سے ہمارے گھریلو بجٹ پر اضافی بوجھ پڑتا ہے، توانائی ماہرین کے بعقول ہمیں روشنی کےلئے روایتی بلب کی بجائے ایل اے ڈی بلب استعمال کرنا چاہے جو روایتی بلب سے 75 فیصد بجلی کم استعمال کرتا ہے ، دوسری طرف جب کبھی آپ اے سی کا استعمال کریں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ دروازے اور کھڑکیاں درست طور پر سیل ہوں اگر ایسا نہ ہوا تو اے سی کو کمرے کو ٹھنڈا کرنے کےلئے زیادہ کام پریشر سے کام لے گا جس کے نتیجے میں بجلی کے استعمال میں اضافہ ممکن ہے، ایک اور مسئلہ الیکڑانکس کی پرانی اور نئی چیزوں کی بجلی کھپت کرنے کی صلاحیت پر بھی ہے، مثلا پرانی فریج، پرانا اے سی، پرانا ٹی وی، پرانی استری وغیرہ نئی کے مقابلہ میں بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں جس سے صارفین کے بل میں اضافہ ہوتا ہے ، بجلی کے بلوں کی ایک اور نمایاں وجہ پیک ٹائم میں ان الیکڑانکس اشیاءکا استعمال ہے جن سے بجلی کا بل بڑھ سکتا ہے،اگر ہم کچھ دیر کےلئے فرض کرلیں کہ حکومت بجلی کے بلوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ واپس لینے کی پوزیشن میں نہیں تو پھر عام پاکستانی شہری کو کیا کرنا چاہے،پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے مگر یہ بھی عین ممکن ہے کہ مسلسل احتجاج ہمارے مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھا دے، اس میں دوآراءنہیں کہ ماضی قریب میں کورونا اور پھر اس کے روس یوکرین جنگ نے ترقی پذیر ممالک ہی نہیں ترقی یافتہ ملکوں کی مشکلات دوچند کردیں ، آج ماضی کے برعکس اشیاءخرودنوش کے دام کئی مغربی ممالک میں بڑھ چکے ہیں، پاکستان کم وبیش 24 کروڈ افراد کا ملک ہے، یہ مطالبہ کسی طور غیر مناسب نہیں کہ یہاں امن، روزگار اور ترقی کے یقینی مواقع ہونے چاہیں، ہمیں مان لینا چاہے کہ بطور قوم ہم ارتقائی دورسے گزر رہے ہیں،ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات بہت اچھے نہیں تو ایسے برے بھی نہیں، بہتری کی گنجائش ہر دور وقت موجود ہوا کرتی ہے، اہل پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بتدریج اپنی اہمیت سے آشنا ہورہے، پاکستانیوں کو یقین ہوچلا ہے کہا ارض وطن پر بہت کچھ بہتر بنایا جاسکتا ہے، شائد یہی سبب ہے کہ ماضی کے برعکس آج وہ حکومتی اقدمات کے زیادہ ناقد ہیں، جمہوریت میں ایسا ہی ہونا چاہے مگر جمہوری نظام کے استحکام میں تسلسل کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کرنا چاہے، اس پس منظر میں میں ہمارے لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تلخ سچائیوں کو قبول کرتے ہوئے اصلاح احوال کےلئے حکومت کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔
٭٭٭٭٭
کالم
کیا احتجاج مسائل کا حل ہے!
- by web desk
- ستمبر 1, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 549 Views
- 2 سال ago
