کالم

کیا بات کرتے ہیں

a r tariq

عمران خان کو مبارک ہو، نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہوگیا اور ناںناں کے بعد ہاں ہاں کی صورت میں وہ سب مقاصد،جن کےلئے خان صاحب میدان سیاست میں نکلے تھے،پالیے اور کیا خوب پالیے ۔یقینا یہ خان صاحب کی ایک بہت بڑی جیت ہے اور پاکستانی سیاست کے ”مہان پتلی تماشہ کھیل“ میں ایسی بظاہر نظر نہ آنےوالی جیت ضروری بھی تھی۔بہرحال خان صاحب بھرپور تحسین کے قابل ہیں کہ وہ پوری طرح ابھی نکلے بھی نہیں تھے،سامنے آئے بھی نہیں تھے،اس امتحان گاہ سیاست کٹھن میں ایک جان لیوا قاتلانہ حملے کے بعد مزید کسی اور امتحان سے گزرے بھی نہیں تھے کہ ان کے متعدد ایک ساتھ دیے”سرپرائزز“ نے ساری بازی ہی پلٹ دی اورایک ہی گیند میں وہ خطرناک یارکر نما با¶نسر مارا کہ سیاسی وکٹ کی ساری کلیاں ہی اڑا دیں کہ ہر طرف کامیاب و کامران ہے خان صاحب۔میرے دوست اکثر مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسے؟ تومیرا مختصرجواب یہ ہوتا ہے کہ ویسے جیسے وہ کامیاب و کامران کہلاتے ہیں۔مجھے مزید تعجب تب ہوتا ہے جب اچھے خاصے دوست حکومتی و اپوزیشن حمایت میں ہلکان نظر آتے ہیں۔کیا سے کیا کہتے،بتاتے، دکھاتے نظر آتے ہیں۔اکثر ٹی وی، چینل، سوشل میڈیا سے انسپائر نظر آتے ہیں۔کمال کے پروپیگنڈہ اور ریشہ دوانیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ایسے میں بعض ”کمال دانشوروں“ کا”مرچ مصالحہ“ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔بہت سوں کی شعلہ نوائی/ طعنہ زنی دوسرے کے بارے سے زیادہ ان کے بارے کا پتا دے رہی ہوتی ہے کہ وہ دراصل کیا ہیں؟۔جب میں ایسی باتیں کرتا ہوں تو اکثر مجھے عمران حمایتی کہتے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں،میں عمران حمایتی نہیں ہوں،نہ شہباز مخالف،میں تو اپنی دانست میں جو صحیح لگتا،وہ لکھتا ہوں،وہ غلط بھی ہو سکتا، اس میں مضائقہ نہیں۔شہباز شریف یا کوئی اور،کچھ اچھا کریں،دکھائیں تو ان کے بارے میں بھی اچھا لکھوں گا ۔ 2018 کے جنرل الیکشن کے فورا بعد دو کالمز نوازشہبازشریف کی ”معصومانہ محبت“ میں لکھے،وہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں وہ میرے لئے شرمندگی و ندامت کا حصہ زیادہ بنے،ایک اورکالم سعودی عرب میں مسجد نبوی میں ان پر چور چور جیسی پبلک ہوٹنگ ہونے پر ان کے حق میں لکھامگربعد میں وہ بھی اس واقعہ میں انہی کے کچھ بندے سامنے آنے کے بعد خود سے ہی شرمندگی سے تار تار ہو گیا۔اب بھلا کوئی مجھ سے کہے کہ عمران کےلئے کچھ اچھا لکھنے کے علاوہ بھی کچھ اور لکھوں تو اب شاید یہ ممکن نہیں رہا،جو کالمز ان”معصوم واہل و ایماندار“ حکمران سیاستدانوں کےلئے لکھ بیٹھا ، اللہ کی بارگاہ میں اس کی تلافی ومعافی کا درخواست گزار ہوں ۔ جگری یار ملتے،کہتے ہیں کہ کچھ ان کے بارے میں بھی اچھا لکھوں ، کہتا ہوں خود لکھ لو،مجھ سے لکھا نہیں جاتا۔میں چاہ کر بھی کلمہ درود پڑھ کر بھی ان کے حق میں لکھنے بیٹھ جا¶ تو بھی کالم خلاف ہی لکھ پاتا ہوں ،شاید کے میرے قلم سے ان کے حق میں کچھ اچھا لکھنا مقدر ہی نہیں ہے ۔ دوست کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کے حق میں بھی لکھا کرو تو ان کےلئے جواب یہ ہے کہ ان مذہبی قائدین فضل الرحمان، سراج الحق، طاہر القادری وغیرہ وغیرہ کے حق میں لکھ چکا ہوں مگر ان سب کا حال بھی پانی میں پتھر پھینکنے جیسا ہے بس اشتعال انگیز بیان بازی،شور اور آواز ہی آواز ہے اور کچھ بھی نہیں ہے کس چیز کی بات کی جائے۔دوست احباب کہتے ہیں کہ یہ کیا ہے کلمہ الی اللہ،کلمہ حق بیان کرو،ہماری طرح درست، بہتر اور مبنی بر حقائق سامنے نظر آتے تجزیے کرو،ٹی وی چینل پرآ کر کچھ بولو،تو ان کو میرا یہی کہنا ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ میں نے لکھا،کلمہ الی اللہ، کلمہ حق،درست،بہتر اور مبنی پر حقائق تجزیہ نہ ہے کیا؟اگر یہ ایسا نہیں ہے تو میں ان جیسا رہاکلمہ الی اللہ،کلمہ حق بیان کرنے سے،ٹی وی چینل پر آ کر ان جیسا بولنے سے، میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے پورے ایمان اور یقین سے بتائیے کہ سارا دن جو کچھ ٹی وی چینلز سوشل میڈیا پر چلتا نظر آتا کیا وہ کلمہ الی اللہ، کلمہ حق ہے؟جو کچھ آپ دیکھتے سمجھتے پرکھتے ہیں میرٹ پر ہے کیا؟یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا تو ایسے میں پھر کلمہ الی اللہ، کلمہ حق بیان کرنے جیسی باتیں کیوں؟ میرے نزدیک میرے لکھے گئے تمام 2018 کالمز اندھے کالم تھے اور اب جو لکھ رہا،روشن کالم ہیں ۔ سوچ اور خیال اپنا اپناہوتا ہے اس پر قد غن نہیں لگائی جا سکتی ۔ ویسے بھی اس ملک کی جو حالت ہے کلمہ الی اللہ، کلمہ حق کہنے کی گنجائش رہتی کہاں ہے۔یہاں صرف نظریہ ضرورت اور صرف ضرورت کی ضرورت کا ہی پرچار ہی کافی ہے ۔ یہاں حق و سچ کہنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔جہاں تک میں نے دیکھا ہے یہاں جھوٹ کو عزت اور سچ کو ہی ہار ہےاور ایسا اب ہی نہیں،قیام پاکستان کے شروع سے چلاآرہا اور اب تک جاری و ساری ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہاں سچ کا وجود ہی سرے سے شرمندہ و تارتار ہے اور جھوٹ مسلسل ہشاش بشاش اور ہٹا کٹا ۔ یہاں کا اجتماعی اداراتی وطیرہ بھی یہی ہے کہ یہاں پر موجود بڑی بڑی ہستیاں جاتے جاتے خود کو ”مہان“دوسروں کو ”جھوٹا“کہہ جاتی ہیں ۔ یہ ملک چند جاگیر دار،سرمایہ دار اور وڈیروں کی جاگیر بن کے رہ گیا ہے۔ اس دیس کو عمیق نظروں سے دیکھنے کے بعد اکثر لگتا ہے کہ شاید یہ دیس ”جئے بھٹو“اور”بلے بھئی بلے شہباز نواز و زرداری کی ہی آماجگاہ رہ گیا ہے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند گنے چنے مخصوص افراد کو اس ملک کی تقدیر بنا دیا گیا ہے اور افسوس اس ملک کا سسٹم اتنا بوسیدہ و ناکارہ ہے کہ اس میں صرف پیسے کی ریل پیل والا ہی آگے جا سکتا ہے روشن تیز دماغ مفلوک الحال اس میں آگے بڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ افسوس یہ ملک ایسا ہے کہ جہاں قصیدہ گو ممبر و محراب کے حقدار ٹھہرتے اور خوشامدی،جی حضوری حضرات سنیٹرز،ایم این اے،ایم پی ایز کی کرسی کے حق دار بنتے،دوسرا اور کوئی نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ اورکوئی طریقہ جس سے کوئی آگے آسکے۔سبھی جماعتوں کے کرتا دھرتا فوج پر تنقید کرتے ہیں مگر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ وہ آئے کیسے تھے اور کن کے سارے چل رہے،اقتدار میں ہو تو فوج کو اعلیٰ بولنے لگ جاتے ہیں اور اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی ان کے منہ کے ساتھ۔بندھ جاتا ، ملک و قوم کی حقیقی محافظ فوج پر۔لگتے۔یہ روش بھی زہر قاتل اور سمِ قاتل جیسی ہے اور فوج کا عالم بھی ایسا ہے کہ ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اقتدار کے اعلیٰ منصب پر کوئی اہل آئے یا نااہل،ان کو پتہ ہے کہ چلانا تو ہم نے ہی ہے، جیسا ہوگا،کام لے ہی لیں گے،یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا یہ حال ہے اور معیشت کبھی بھی نہ سنبھلنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سبھی تو خزا نے کی نوٹوں کی بوریوں کے منہ اپنے لیے صرف کھلے ہی دیکھنا چاہتے ہیں رتی بھر بھی کسی طرف سے بھی کمی کوتاہی ہرگزمنظور نہیں ہے ۔ خزانہ بھی بیچارہ کیا کرے،علی بابا اور چالیس چوروں کے ہاتھوں ہمیشگی یرغمال ہے ۔ حساب بے حساب خرچ ہو رہا ،اپنی مریل حالت سے صحت کی طرف سفر کرے تو کیسے؟کون نہیں جانتا کہ یہاں مسیحا کے روپ میں جو بھی آیا اس ملک کی نیا ڈبو کر گیا مگر خود خوب سوا سیر ہو کر گیا ۔میں نے تو اکثر اپنے ملک کے سابق ”بیمار“ حکمرانوں کو گبو گوشے کی طرح کی سفیدو لال دیکھا ہے ۔ زیادہ دور نہ جائے اقتدارسے محرومی کے دور میں ہاتھ درد،سردرد،بدن درد حال کے بیمار اچانک سے ہی اقتدار ملتے، ٹائی شاہی لگائے ، اقتدار کی کرسی پر بطور حکمران براجمان ہوتے ہی سفیدو لال سے ہوگئے ۔ الاماشااللہ چند ایک کو چھوڑ کر بہت سے لال و سفید ہوئے پڑے، ان کے چہرے پر اقتدار پالینے کے بعد سے لالیاں پکھ رہی ہیںایسے میں اگر اب بھی کھٹی بٹیٹ اور حال و بے حال پھرتی ہے تو وہ بیچاری مفلوک الحال سب غم سہتی رعایا ہے۔مجھے ان حالات میں کبھی بھی کلمہ الی اللہ، کلمہ حق بیان کرنے والوں کی سمجھ نہیں آئی کہ کیسا کلمہ الی اللہ ،کلمہ حق کہ سارے دامن ذلالت ،جھوٹ ، مکاری سے بھرے پڑے ہیں ۔بے حیائی کا چلن عام ہوا پڑا ہے ۔ سود عام ہے۔ کوئی سمت درست نہیں ہے ۔ ملکی معیشت کے اشاریے وینٹی لیٹر پر لگے ہوئے ہیں ۔ شاہوں اور ان کے گداوں کی تنخواہیں و مراعات بڑھانے کی ہی ہر طرف ہر ایک کی نظر ہے غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ معاملہ اب یہاں تک آ پہنچا ہے کہ اب حکمرانوں کی طرف سے اپنا”خرچہ نوکر شاہی“ بھولے اب ریاست کے مجبور و محکوم ملازمین کی بعد ازاں ریٹائرمنٹ ان کی پنشن ختم کرنے کی ایک حال میں ہی ”امپورٹ“ مداری کی طرف سے پیش تجاویز کا خیر مقدم کر رہے ہیں ۔ ملک کو ازلی چوروں ، ڈاکو¶ں اور لٹیروں کے حوالے کیا ہوا ہے جو اس کو کھا،چاٹ رہے ہیں اور ہاتھوں میں کشکول پکڑا ہوا ہے محض ملک و قوم کےلئے۔ایسے میں اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو گی کہ سبھی بات کرتے ہیں کلمہ الی اللہ،کلمہ حق کی ۔کیابات کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri