کالم

کیا طوائف بھی سچ بولتی ہے ،ماخوذ

را قم کو اکثر واٹس ایپ یوٹیوب فیس بک اور دیگر ذرائع مواصلات سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص کر سٹریٹ کرائم سمیت عدم برداشت اور برائی کے اڈوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہرکوئی باسانی محسوس کررہا ہے۔چونکہ راقم کا زیادہ تعلق شہر اقتدار اسلام اباد سے عرصہ دراز سے ہے ۔ اور راقم نے اسلام آباد ہی کی برائی کی دلدل میں گھری ہوئی بنت حوا کے بارے میں کچھ لکھنے کا پروگرام بنا کر قلم پکڑا اور لکھنا شروع کر دیا کہ ایک عورت کن مراحل سے گزر کر ایک طوائف کا روپ دھارتی ہے ۔ اسلام آباد پہنچ کر ایک گنجان آباد علاقہ کی طرف چل پرا ،تنگ و تاریک گلیوں سے ھوتے ہوئے ایک مکان کے سامنے رک گیا اور دستک دی۔اندر سے ایک خوب صورت حسینہ نے دروازہ کھولا اور لکھن کی طوائفوں کی طر ہ اداب بجا لائی ،وہ طوائف مجھے لیکر اندر چلی گئی اور صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود سامنے والے صوفہ پر براجمان ہو گئی۔میں نے ترچھی نظر سے اسکی طرف دیکھا۔وہ بلا کی حسین تھی ۔اس نے پانی کا گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب کیا آپ ایک لکھاری ہیں ،میں نے فاخرانہ قسم کی عاجزی اختیار کرتے ہوئے کہا۔جی بس ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرتا ہوں۔اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا طوائف پر لکھنے کے لئے آپ نے شیخوپورہ سے اسلام آباد تک کا سفر کیوں کیا ؟ حالانکہ آپ کو شیخوپورہ میں بھی سینکڑوں طوائفیں مل سکتی تھیں۔میں نے غصے سے دیکھا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا،اور ایک دائرے کی مانند دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔۔صاحب آپ بھی لنڈے کے لکھاری لگتے ہو۔ایک کامیاب لکھاری اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے۔اسکی بات سن کر میرے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوا لیکن اسکی اتنی دانشمندانہ گفتگو مجھے حیران کر رہی تھی۔وہ جیسے جیسے بول رہی تھی ویسے ویسے اسکے گال غصے سے سرخ ہو رہے تھے۔اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا پھر بولی۔صاحب جج یہاں انصاف بیچ رہا ہے لیکن قابل نفرت صرف جسم فروش عورت ہے۔سیاست دان اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں،لیکن ان کو آپ لیڈر مانتے ھیں جب کہ ایک مجبور طوائف کی جسم فروشی آپ کو چبھتی ہے ۔یہاں ڈاکٹر موت کا کاروبار کر رہے ھیں،لیکن آپ کی نظر میں وہ مقدس پیشہ ھے۔یہاں وکیل پولیس رشوت لیکر جھوٹے مقدمات بناتے ہیں اور پولیس جعلی مقابلوں میں قتل عام کرتی ہے ۔یہاں ملک سے وفاداری کا عہد کرکے شب خون مارے جاتے ہیں۔ یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں،یہاں ملک کے وسائل اور کاروبار پر دن دیہاڑے قبضے کیے جاتے ہیں یہاں ملک کو معاشی اپاہج بنایاجاتاہے،یہاں ریاست کے اندر ریاست بنائی جاتی ہے۔یہاں حق مانگنے والے کو غدار بنایا جاتا ہے،یہاں میڈیا دن کو رات دکھاتا ہے۔ یہاں صحافی اپنا قلم ٹکے ٹکے پر بیچتا ہے،یہاں اساتذہ بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں یہاں تعلیم صرف ایک کاروبار ہے،یہاں پیسے سے اوپر سے نیچے تک سب خریدا جاتا ہے،یہاں زندگی کا ہر شعبہ تعفن سے بھرا ہے۔لیکن قابل نفرت صرف طوائف ھے، جو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کیلئے اپنا جسم بیچتی ھے۔اسکی باتیں سن کر میرے ماتھے کی شکنوں پر پسینہ ٹھہر کر قطرہ قطرہ یوں نیچے گر رہا تھا جیسے بارش میں کسی غریب کے کچے مکان کی چھت ٹپکنے لگتی ہے۔اس نے ٹشو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا،صاحب! جس معاشرے میں آپ رہتے ھیں وہاں ایک طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں،میں اس کی یہ بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور دل ہی دل میں سوچا کہ ایک طوائف کیسے اپنی جسم فروشی کا دفاع کر رہی ہے۔اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:اگر ہم طوائفیں ان مرد نما بھیڑیوں کی آگ ٹھنڈی نہ کریں تو یہ بھیڑئے بنت حوا کی معصوم کلیوں کوبھی مسل ڈالیں اور انکا گوشت بھی نوچ کر کھا جائیں۔ میں جو دل میں کئی سوال لیکر لیہ سے چلا تھا وہ سب گم ہو چکے تھے۔وہ مسلسل بول رھی تھی اور میں جو خود کو لکھاری اور دانشور سمجھتا تھا ایک طوائف کی گفتگو کے سامنے لاجواب نظر آ رہا تھا۔وہ اٹھ کر میرے قریب بیٹھ گئی اور کہا صاحب،آپ نے کتے کو پانی پیتے ہوئے کبھی دیکھا ھے؟اس اچانک سوال پر میرے منہ سے ھاں نکلی۔اس نے سگریٹ کا کش لیکر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب،اس شہر کے بڑے بڑے لوگ جو مسیحائی کا لبادہ اوڑھ کر آپ جیسوں کو بیوقوف بناتے ھیں جب ہمارے پاس آتے ھیں تو ہمارے پاؤں کے تلوے اس طرح چاٹتے ھیں جیسے کتا پانی پیتا ھے۔یہ کہہ کر اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا تو میں خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا۔اس نے پیچھے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا،صاحب! اگر لکھاری بننا ھے تو جسم فروش طوائفوں پر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائفوں پر لکھا کرو۔ پھر آپ کو شیخوپورہ سے اسلام آباد بھی نہیں آنا پڑے گا۔اپنی قلم میں جرات پیدا کرو۔کچھ غلط تو نہیں بولا اس عورت نے ۔ مجھ سمیت سارے معاشریکو آئینہ دکھا دیا تھا۔تو مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول یاد آگیا کہ جس حکمران کے دور میں روٹی اس کی مزدوری سے زیادہ مہنگی ہو جائے تو اس دور کے لوگوں کا خون سستا عورت کی عزت بہت ارزاں اور مرد کی غیرت طوائف کا روپ دھار لیتی ہے۔تو راقم کو محسوس ہوا کہ بعض اوقات طوائف بھی بہت زیادہ تکلیف دہ موضوع کو گفتگو ے سخن بنا کر اور سچ بول کر معاشروں کی حقیقی عکاس بننے کی حقدارمحسوس کروا دیتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے