اکثر آپ صاحبان نے دیکھا ہو گا کہ اسکولوں ہسپتالوں کے باہر سڑک پر ایک چھوٹا سا بورڈ ”یہاں ہارن بجانا منع ہے” لگا ہوتا ہے، ہمارے ملک میں جتنا اس پر عمل ہوتا ہے وہ تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے، لیکن ہارن بجانا ہمارے ہاں برا نہیں سمجھاجاتا، اسکی وجہ اکثر ڈرائیور حضرات کی ذہنی کیفیات جو عموماً ان پڑھ ہوتے ہیں، کچھ گاڑیوں خاص طور پر سوزوکی ویگنوں، رکشوں،چنگ چی وغیرہ پر بچے ڈرائیونگ کرتے نظر آتے ہیں لہذا ہارن کا بار بار بجانا وہ برا نہیں اسے فن اور انجوائےمنٹ کیلئے بجاتے ہی چلے جاتے ہیں اور یوں وہ بلا وجہ نہایت ہی غیر ضروری طور پر ہارن کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ایک فیشن کے طور پر یا برتری کیلئے بھی بجاتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ اکثر قیمتی گاڑی والے جب آگے۔۔۔ پھٹارہ۔۔ سی چھوٹی گاڑی رستہ نہ دے رہی ہو تو ہارن پر اسوقت تک ہاتھ دبائے رکھتے ہیں جب تک اسکی آگے لائین بالکل کلئیر نہ ہو جائے اور توہین آمیز طریقے سے اسے کراس کرتے وقت بعض اوقات اسے ایک جھٹکا سا بھی دے جاتے ہیں، ڈرانے دھمکانے کیلئے، جسے روڈ کی زبان میں۔۔۔سائیڈ مارنا ۔۔۔بھی کہتے ہیں اور یوں اس بے چارے کو اپنی اوقات یاد کراتے ہیں۔ بعض ہارن تو اتنے بیہودہ اور بے ڈھنگے ہوتے ہیں کہ آگے والا ڈر سا جاتا ہے، ایکسیڈنٹ کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے اور یہ چیخ پکار والے ہارن ہمیشہ بڑی بڑی بسوں ویگنوں اور پبلک سروس ٹرانسپورٹ اور لمبے ٹریلوں والے استعمال کرتے ہیں جنکی میلوں تک آواز جاتی ہو گی۔ بڑے شہروں میں ایک بدتمیزی زور پکڑتی جا رہی ہے کہ اگر کوءخاتون گاڑی ڈرائیو کر رہی ہو تو پیچھے والے خواہمخواہ ہارن بجاتے رہتے ہیں۔ ٹریفک پولیس جرمانے بھی کرتی ہے، ہارن اتار کر ضبط بھی ہوتے ہیں لیکن۔۔۔سا¶نڈ پولوشن۔۔ کا یہ ماحول دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ شاید برصغیر میں ہی ممکن ہے یا ارد گرد کے وہ ممالک جن میں انڈو پاکستان کا روڈ کلچر کسی نہ کسی طرح فلموں وغیرہ کے ذریعے وہاں پہنچتا رہتا ہو گا کیونکہ وہاں بھی یہ لعنت کافی حد اپنے قدم جما چکی ہے۔ سروس کے دوران ایک دفعہ ہم عیسیٰ خیل ہفتہ وار عدالتی دورے پر تھے کہ واپسی پر اسسٹنٹ کمشنر صاحب بھی میانوالی ضلعی صدر مقام ہمارے ساتھ ہو لیئے۔ جج صاحب کو اے سی صاحب نے اپنی سرکاری جیپ پر سفر کی دعوت دی سو ہم بھی انکے ہم رکاب ہوئے کہ راستے میں اے سی صاحب جو خود گاڑی چلا رہے تھے اور انکا ڈرائیور ہماری کار کو پیچھے پیچھے لا رہا تھا بار بار ایک ٹرک کو پیچھے سے ہارن دے کر راستہ چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔ پرانی بات ہے، عیسیٰ خیل۔ میانوالی روڈ سنگل اور کناروں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، ٹرک ڈرائیوروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ چونکہ اکثر ٹرک لوڈ ہوتے ہیں اور یہ لوگ اپنے ٹائروں کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں یہ مست ملنگ فوری راستہ اسوقت تک نہیں دیتے جب تک کوءکھلا یا ایک محفوظ مقام سڑک سے اترنے کا انہیں نہ ملے۔ یہ تماشہ چند منٹ جاری رہا اور خدا خدا کر کے وہ ٹرک سڑک سے نیچے اترا تو اے سی صاحب جو نوجوان تھے غالباً جاوید۔۔۔نام تھا انکا اور لامحدود اختیارات کے حامل، نیچے اتر کر ہاتھ میں چھڑی پکڑے نا صرف اسکی خوب کلاس لی بلکہ بھاری جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ اب تو موٹر سائیکل والوں نے بھی بطور فیشن یا شوقیہ ایسے ایسے۔۔۔کان پھاڑ قسم کے ہارن۔۔ فٹ کروا رکھے ہیں کہ گاڑی کے پیچھے آ کر جب اپنا وہ شوق بے دردی سے پورا کرتے ہیں تو آگے والے کو گمان ہوتا ہے کہ پیچھے کوءبڑی گاڑی جلدی میں ہے اور ڈر کر اگلا فوراً راستے چھوڑ دیتا ہے اور جب پاس سے۔پھٹپھٹی نما۔۔ کوئی چیز اسے کراس کرتے گزرتی ہے تو پہلے تو غصہ آتا ہے اور پھر ہنسی سی نکل جاتی ہے۔ میرے ایک دوست ریٹائرڈ کرنل صاحب فوجی کالونی مورگاہ کے رہائشی ہیں، کچھ عرصہ میں بھی انکے اڑوس پڑوس میں رہا،اکثر میرے کالم پڑھتے ہیں اور سماجی مسائل کی نشاندھی فرماتے رہتے ہیں۔ آج کے موضوع پر لمبی بات ہوءاور اپنا قصہ سنایا کہ فیملی ممبرز کے ساتھ جہلم سے پنڈی ڈرائیونگ کے دوران پنڈی تک وہ ہارن کے بے دریغ استعمال سے بچتے بچاتے بخریت پہنچ گئے تو گاڑی میں سے ایک خاتون نے سیدھا سوال کیا کہ بھاءجان کیا وجہ ہے دوران سفر آپ نے ہارن بالکل نہیں بجایا۔اسکی وجہ؟؟؟ انہوں نے جواباً کہا کہ ایسی بھی کوءبات نہیں جہاں ایک دو جگہ ضرورت محسوس کی ہارن کا انہوں نے وہاں استعمال کیا لیکن یہ بات درست ہے کہ اسکا بے دریغ استعمال نہ کیا۔
ایک اور گرجدار اور مکروہ قسم کی آواز اکثر جانوں سے ٹکراتی ہے وہ منچلوں،بلکہ لوفر قسم کے لڑکوں گلی محلوں سڑکوں پر پھٹے سیلنسروں سے موٹر سائیکلوں کا بھگانا ہے۔ یہ شاید آجکل رہائشی علاقوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکام کی توجہ کا متقاضی ہے۔
چلتے چلتے، چالیس پچاس سال قبل پی ٹی وی پر ایک پروگرام میں کسی میزبان کی اس روز خصوصی مہمان ہماری مشہور گلوکارہ۔۔۔ناہید نیازی۔۔صاحبہ تھیں۔ بہت سی باتیں ہوئیں اور آخر میں اینکر نے ان سے سوال کیا کہ آپ اکثر انگلینڈ میں ہوتی ہیں، آپ یہ بتائیں کہ پاکستان اور انگلینڈ کی عام روزمرہ زندگی میں کیا فرق ہے، ناہید نیازی نے بڑا سوچ سمجھ کر جواب دیا کہ انگلینڈ کی سڑکوں پر ہارن بجانا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہاں ہر کوءہارن بجاتا ہے بلکہ یہاں بڑی بے دردی اور غیر ضروری طور ہارن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور آخر میں اسی موضوع پر راقم کے ایک عزیز ملک ظفر سب انسپکٹر آف پپلاں نے قانونی طور پر اس پر کچھ الفاظ کا اضافی کروایا۔ جیسے۔۔
پنجاب میں اسکے لیے باقاعدہ قانون موجود ہے۔ پولیس ٹریکٹر رکشہ اور دوسری گاڑیاں جنکے ہارن پبلک کے لیے کر اہت کا باعث بنتے ہیں جس پر 6 sound system 2015 کے تحت ایک سمری ٹرائل پروسیجر کے تحت سزا دی جاتی ہے جو کم از کم 25000 روپے جرمانہ یا 6 ماہ کی قید ہے اور یہ in practiceہے۔ پنجاب میں یہ قانون بھی رائج ہے کہ اگر کوءاونچا میوزک آپکے پڑوس میں آپکو ڈسٹرب کر رہا ہے تو وہ بھی اس Law میں آتے ہی اور اس بابت اکثر پولیس کسی بھی شکایت پر فوری کاروائی کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ 80 پی ایس آءکا شور ایک عام انسان آٹھ گھنٹے تک تو برداشت کر سکتا ہے، لیکن اس سے اوپر چند منٹ بھی برداشت نہیں ہوتا جبکہ پریشر ہارن کا لیول اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ بوقت ضرورت ہارن بجانا بالکل منع نہ ہے لیکن اگر غیر ضروری بلاوجہ اور اتنی اونچی آواز سے ہارن بجایا جائے جس سے عام آدمی یا پبلک لائف متاثر ہو سکتی ہے تو اس پر نہ صرف جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے بلکہ جیل کی سیر بھی کروائی جا سکتی جو چھ ماہ تک بھی ہو سکتی ہے۔
کالم
کیا ہارن بجانا منع ہے؟
- by web desk
- اگست 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1298 Views
- 2 سال ago
