کالم

کیا ہم قیدی تخت پشور دے آں؟؟

ہزارہ کی دھرتی ہمیشہ قربانیوں اور وفاداری کی مثال رہی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس نے پاکستان کے قیام اور بقا کے لیے اپنا سب کچھ وار دیا مگر بدلے میں محرومیاں اور زخم ملے۔ جب تربیلا ڈیم بنا تو ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، ان کی زمینیں، ان کے کھیت کھلیان اور یہاں تک کہ ان کے بزرگوں کی قبریں پانی میں ڈوب گئیں۔ تاریخ میں یہ ایک انوکھا منظر تھا کہ لوگ اپنی متاع حیات قربان کرتے رہے مگر ملک کی خاطر لبیک کہا۔ مگر آج انہی قربانی دینے والوں کی نسل ہاتھوں میں ڈگریاں لیے دربدر پھر رہی ہے۔ سرکاری اداروں اور بڑے منصوبوں میں نوکریوں پر غیر مقامی افراد قابض ہیں جبکہ مقامی ہزاروی نوجوان کو صرف یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیںیا باہر سے زیادہ اہل لوگ ہیں۔یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ اس خطے کے اندر ایک گہری نفرت کو جنم دے رہا ہے۔ ہمارے ہزارہ کے لوگ کوئی غیر نہیں، وہی ہیں جنہوں نے اپنی بستیاں اجاڑ کر تربیلا ڈیم کو حقیقت بنایا، وہی ہیں جنہوں نے ملک کے دفاع میں خون دیا، وہی ہیں جنہوں نے سات جانوں کی قربانی دی صرف اپنے صوبے کے مطالبے کیلئے۔ پھر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے سب کچھ قربان کیا، کیا انہیں اس بات کا حق بھی نہیں کہ اپنے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق تسلیم کیا جائے؟ اگر سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ ہو سکتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو حصہ دیا جاتا ہے تو ہزارہ میں کیوں نہیں؟ یا یہ کہ سرائیکی لوگ دہائیاں دیتے رہیں کہ ہم تخت لاہور کے قیدی ہیں، اور ہم ہزارہ والے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہم تخت پشاور کے قیدی ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک خطے کی محنت اور قربانی کا پھل دوسروں کو ملے اور اصل وارث ہاتھ ملتے رہ جائیں؟
دنیا میں اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں حکومت نے اپنے شہریوں کے روزگار کے تحفظ کیلئے پروگرام متعارف کرایا۔ اس پروگرام کے تحت کمپنیوں اور اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک مخصوص شرح سے سعودی شہریوں کو ملازمتیں دیں۔ کہیں 30فیصد، کہیں 40فیصد اور بعض شعبوں میں 100فیصد نوکریاں صرف سعودی عوام کیلئے مخصوص کر دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی نوجوانوں کو باعزت روزگار ملا، غیر ملکیوں کا بے جا تسلط کم ہوا اور مقامی معیشت کو سہارا ملا۔یہی ماڈل ہزارہ میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ ہزارہ کے تمام ترقیاتی منصوبوں، صنعتوں اور اداروں میں 80 فیصد نوکریاں لازمی طور پر مقامی ہزاروی نوجوانوں کو دی جائیں اور باقی 20فیصد ضرورت کے مطابق باہر سے ماہرین بلائے جائیں۔ گریڈ 4 تک کی تمام ملازمتیں صرف مقامی لوگوں کے لیے مختص ہوں۔ یہی اصول گوادر اور بلوچستان جیسے خطوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔بلوچستان کے لوگ دہائیاں دیتے ہیں کہ ہمارے وسائل پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ گوادر میں ایک طرف بندرگاہ کے نام پر پورے ملک کو سہولت دی جا رہی ہے مگر مقامی لوگوں کے حصے میں غربت اور بے روزگاری ہی آ رہی ہے۔ وہاں بھی کم از کم گریڈ 4 تک کی نوکریاں مقامی لوگوں کو دینی چاہئیں، اور جو نوجوان پڑھ لکھ گئے ہیں انہیں کلرک، کمپیوٹر آپریٹر، ٹیکنیشن اور سپورٹ اسٹاف کی سطح پر لازمی کھپایا جانا چاہیے۔ مگر افسوس کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ غیر مقامی لوگ آکر ہر اچھا عہدہ لے جاتے ہیں اور مقامی لوگ زمین اور سمندر کے مالک ہوتے ہوئے بھی مزدوری پر مجبور رہتے ہیں۔ یہی شکوہ سرائیکی وسیب کے عوام کرتے ہیں کہ تخت لاہور کے فیصلوں نے ان کے خطے کو پیچھے دھکیل دیا، ان کے وسائل ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹے گئے۔ یہی کیفیت آج ہزارہ کے عوام کی ہے کہ تخت پشاور کے فیصلے ان کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔یہی وہ پس منظر ہے جس میں تحریک صوبہ ہزارہ اٹھی اور آج یہ مطالبہ دن بدن زور پکڑ رہا ہے۔ حالیہ کنونشن میں میں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کے روزگار کو بچانے کے لیے سعودی عرب کے نطاقات ماڈل کو اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ خالصتاً عوامی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں کسی کھاتے میں نہیں آ رہیں، ان کے وسائل دوسروں کو بانٹ دیے جا رہے ہیں اور وہ محض تماشائی ہیں تو ان میں مایوسی بڑھتی ہے۔ مایوسی نفرت کو جنم دیتی ہے اور نفرت آخرکار بغاوت میں بدل جاتی ہے۔ اس ملک کو اگر بچانا ہے تو انصاف پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہزارہ کے عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں ان کے وسائل پر حق دیا جائے۔ سردار یوسف، سجاد قمر اور تحریک صوبہ ہزارہ کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس مطالبے کو ایک باضابطہ پالیسی کی شکل دیں اور مرکز تک لے کر جائیں۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہزارہ کا روزگار ہزارہ کے لوگوں کے لیے کے اصول کو تسلیم کیا جائے۔ ہم کسی کے خلاف نہیں، ہم صرف اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔
اگر سندھ میں کوٹہ سسٹم ہے، اگر بلوچستان اپنے وسائل کی جنگ لڑ رہا ہے، اگر سرائیکی لوگ اپنی شناخت اور حق مانگ رہے ہیں تو ہزارہ والے بھی حق بجانب ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ محرومی بڑھتی جائے گی اور محرومی کبھی خیر کی خبر نہیں لاتی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ہزارہ کے عوام کو ان کا حصہ دیا جائے، ان کی قربانیوں کا اعتراف ہو اور ان کے نوجوانوں کو باعزت روزگار دیا جائے۔ یہی اس ملک کی ترقی، اتحاد اور استحکام کی ضمانت ہے۔باقی اس فنکشن میں صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی جس کے لیے میرا خیال ہے ان سے سجاد قمرنے معافی بھی مانگی تھی مسئلہ یہ ہوا تھا کہ ایک شخص نے سیاسی تعفن پھیلانے کی کوشش کی بہرحال اس کی کافی حد تک رسوائی ہوئی اگر وہ سمجھے توبہرحال سوال پھر بھی زندہ ہے کہ کیا ہم قیدی تخت پشور دیاں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے