قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دیا پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کے بعد پھر تم مر جانے والے ہو پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاو گے آدم کو جب تخلیق کر لیا گیا تو اللہ تعالی نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوںنے سجدہ کیا اس نے انکار کیا تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا اللہ نے اپنے حکم کی پیروی میں انسان کو سجدہ نہ کرنے پر ابلیس جو کہ ہزاروں سال اللہ کی قربت میں رہا اسے اپنی محفل سےہی الگ کر دیاانسان اشرف المخلوقات ہے زمیں پر اللہ کا نائب اس کے احکامات نافذکرنے والا بلکہ ان پر عمل کرتے ہوئے جب بھی اللہ واپس بلائے جانے والا ہے ۔ جس ذات نے اسے تخلیق کیا اس نے زندگی گزارنے کے قاعدے اور قوانین بھی عطا فرمائے ۔ انسان اتنا اہم ہے کہ اسکی اہمیت کو نا ماننے والے کو اللہ نے اپنے سے الگ کر دیا ۔ لیکن انسان جب اس دنیا میںآکر اپنی دنیا خود آباد کرتا ہے تو نہ صرف برباد ہوتا ہے بلکہ باری تعالی کی ناراضگی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ چاند پر کمندیں ڈالنے والا کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اسکی ابتدا حقیر انداز میں ہوئی ،پیدائش کے سات مراحل ہیں بے جان سے جاندار بنا کر اللہ انسان کو دنیا میں بھیجتا ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ پاک کیا سے کیا بنا دیتا ہے خوبصورت اشکال اور پھر بنانے والے کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اعمال۔ لیکن یہ مرحلہ بڑا افسوسناک ہے کہ نہ تو اپنی حیثیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی اپنے اعمال کو حکم خداوندی کے تحت لانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے تخلیق کرنے سے پہلے ہی ہمیںمسلمان والدین کے ہاں اور حضورﷺ کی امت بنا کر بھیجا پیدائش کسی بھی قوم میں ہو سکتی تھی لیکن خاص کرم ہوا کہ ہم سرکاردوعالمﷺ کی امت کا فرد ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے افضلیت اللہ اور اسکے احکامات کو نہیں دی اسی لیے مشکلات اور پریشانیوں کے بھنور میں پھنسے رہتے ہیں اللہ تعالی نے اپنے پرانے عبادت گزار یعنی شیطان کو بھی انسان کی خاطر راندہ درگاہ کر دیا کہ اس نے اللہ کے حکم کی پیروی میں انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اللہ نے اس قدیم کو نکال دیا کہ اس نے میری پسند کو قبول نہیں کیا ہم اس حقیقت کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے اللہ کے بجائے شیطان کی قربت میں رہ کر زندگی گزار رہے ہیں کیا ہم اپنے اعمال سے خود مطمئن ہیں کیا ہمارا دل اور ضمیر اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے قریب ترین رہ کر گزار رہے ہیں اپنی زندگی سے شیطان کو نکالنے کی کوشش ہی نہیں ہوتی اس موذی کے پھندے میں پھنس کر ہم اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں روزانہ کی زندگی میں کبھی اپنے اعمال کا محاسبہ نہیں ہوتا کہ میں کس حد تک نافرمان ہوں اور اسکا تدراک کس طرح کروں ہم صرف اور صرف اس دنیا کی زندگی کوآسان کرنے کی تگ و دود میں لگے رہتے ہیں ہر جائز اور ناجائز حربے سے چار دن کی زندگی اپنی مرضی اور خواہش کے تحت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں عالیشان گھر بڑی گاڑی دولت دکھاوا غرور سبھی کچھ زندگی کے قلیل عرصے کے لیے حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں راحت اور آرام جن کے لئے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں حاصل نہیں ہوتے زندگی میں پریشانیو ں کے علاوہ کیا حاصل ہوتا ہے جس شخص سے بات کریں وہ دکھ کی کتاب کھول کر سنانا شروع کر دیتا ہے لیکن مر مر کر جی رہے ہیں اور جی جی کر مر رہے ہیں سوچا جائے تو زندگی کا کچھ عرصہ گزرگیا وہ بھی اپنی من مانیوں میں لیکن باقی زندگی تو ابھی ہے اسکا صحیح عرصہ تو رب العزت ہی کو معلوم ہے کہ زندگی کب ختم ہوگی اور کس جگہ اس جسم نے سپرد خاک ہونا ہے اصل میں دیکھا جائے تو سب ایک انسان اور ایک خدا کی کہانی ہے ۔ جس پر ہم کبھی غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہر انسان نے فردا فردا اپنے اعمال کا اللہ کو جواب دہ ہونا ہے کسی دوسرے انسان کا دخل نہیں ہے بس ہم ہیں اور اللہ ہے اس پاک ذات کا حکم ملتا ہے اور ہم اسکا حکم ماننے والے بن جائیں تو کامیاب ہیں یہ زمانہ جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں نہ اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی برا یہی زمانہ غیر اللہ ہے اور یہی عین اللہ ہے اللہ کے تمام ارشادات اور تمام واقعات اسی زمانے سے ملیں گے یہیں انسان نے گمراہ ہونا ہے اور یہیں راہ پر چلنا ہے یہیں سے جنت کا سفر ہے اور یہیں سے جہنم کے سفر کا آغاز ہے تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے یہ خیال بھی اس پاک ذات کی طرف سے ملتا ہے اللہ نے جن لوگوں پر عنایات فرمانی ہوتی ہے ان کو اچھا خیال عطا ہوتا ہے جاہلوں کو مال اور دولت کی ہوس ہوتی ہے لہٰذا دعاوں کا محور یہی خیال ہوتا ہے لیکن خوش نصیبوں کو نیک خیال ملتا ہے تو مال والے اور ہوتے ہیں اور خیال والے اور لوگ ہوتے ہیں خیال اصل میں آپ کا اپنا نام ہے ۔ یہاں دنیا میں آکر ہم کھو گئے ہیں اور اپنے آپ سے ملنے کا وقت بھی میسر نہیں ہوتا کبھی ہم اس دنیا کو بھول کر چھوٹی چھوٹی باتوں سے نکل کر گزر جائیں تو پھر خیال کی دنیا ملتی ہے اگر خیال کی یہ دنیا ختم ہو جائے تو پھر کچھ نہیں نہ حافظہ رہتا ہے نہ ماضی نہ حال نہ مستقبل یعنی تخیل ۔ مستقبل بھی خیال ہے جو آنے والا وقت ہوگا لیکن معلوم نہیںہوتا کہ کیا ہوگا ۔ زندگی خیالوں کی بھول بھلیوں میں گزر جاتی ہے جو موجو د لمحہ ہے وہ حقیقت ہوتا ہے باقی سب خیال تو خیال خوبصورتی ہے احسان ہے بلندی ہے ۔ اللہ کا خیال اور حضور ﷺ کا خیال اصل میں زندگی کا اثاثہ ہے اگر خیال کی دنیا ختم ہو جائے تو پھر دنیا میں کچھ نہیں رہتا خیال بھیجنے والا بھیجتا ہے اسکی تحقیق نہیں ہو سکتی یہ جہاں چاہے جب چاہے کہیں بھی نمودار ہو سکتا ہے ہر خیال نیا اور پرانا ہوتا ہے خیال اگر دل میں پیدا ہو تو سرفرازی ہے اللہ کی مہربانی ہے یہ ایک قدسی پرندہ ہوتا ہے قدس سے آتا ہے یعنی بارگاہ قدس سے آتا ہے جس کے سر پر بیٹھ گیا اسکو خیال مل جاتا ہے خیال تعلق سے پیدا ہوتا ہے یہ ایک بیج کی طرح تن آور درخت بنتا ہے پھر خیال ہی خیال ،خیالات اور تخلیات پیدا ہوتے ہیں جس ذات نے انسان کو تخلیق کیا اسی نے خیال کو تشکیل دیا وہی انسان کی شکلیں بناتا ہے وہی خیال کی بھی شکلیں بناتا ہے یہ خاص عنایت ہے ہم حقیقت کے بارے میں سوچنے سے کتراتے ہیں دنیا میں مگن رہتے ہیں اپنی حقیقت کہ کیسے تخلیق کے مدارج طے کر کے ہم اس کے کرم اور حکم سے اس دنیا میںآئے ہیںسوچتے ہی نہیں اسلام نے یونہی نہیں یہ راز کہا کہ یہاں رہنے کی تمنا کفر ہے اور یہاں سے نکلنے کی تمنا اسلام۔ آخرت پر یقین کرنے والے کو مسلمان کہا گیا اور اس زندگی پر یقین رکھنے والے کو کافر کہا گیا،کافر ظاہری شان و شوکت کا قائل ہے اور مومن آخرت کا خیال رکھتا ہے ۔ اللہ ہمیں سوچنے اور صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔