کالم

کےا وطن عزےز مےں تبدےلی کا سوےرا طلوع ہو گا؟

اس جہان تگ و دو مےں ہر چےز فانی اور ہر لمحہ تغےر پذےر ہے ۔تغےر و تبدل فطرت حےات ہی نہےں بلکہ نظام قدرت بھی ہے ۔ہم لمحاتی تبدےلےوں کے ادراک اور احساس سے غافل ہےں لےکن دنےا بنانے والے نے اس کو چلانے کےلئے جو نظام بنا رکھا ہے اس کے نظام قدرت اور وضع کردہ نظام اوقات مےں کوئی تبدےلی کر سکا اور نہ ہی کوئی کرسکے گا اور نہ ہی قدرت والا اس کے نظام مےں کسی کو اختےار دےتا ہے ۔دنےا داروں نے دنےا داری نظام چلانے ،حکومتےں بنانے اور انہےں چلانے کا جو نظام قائم کر رکھا ہے ،ےہ نظام اور اس کے مقررہ اوقات بدلتے رہے ہےں اور بدلتے رہےں گے کےونکہ دنےاوی نظام مصلحتوں پر قائم ہوتا ہے ۔مصلحتوں کی ترجےح اسے تبدےلی کی سعی کےلئے مجبور کرتی ہے ۔اس سعی کے پس پردہ ذاتی مفاد کی وابستگی ہی پوشےدہ ہوتی ہے ۔ ےہ چکر اسی طرح چلتا ہے جب مصلحت دےکھی چلے آئے اور جب مصلحت دےکھی چلے گئے ۔ جب اقتدار و اختےار کے نشے کو چھوڑا نہ جا سکتا ہو اور بھرپور خواہش اقتدار کو دےر تک دبا کر رکھنا بھی ممکن نہ رہے تو پھر اپنے مخالفےن کو زمےن پر بچھاڑ کر تبدےلی کی خواہش انگڑائی بن کر بےدار ہو جاتی ہے ۔جب رےاست کی تبدےلی مقصد بنا تو تمام دلائل اس کےلئے فراہم کئے گئے کہ سےاسی تبدےلی کی جدوجہد ہی اےک ہمہ گےر تبدےلی کا دروازہ کھول سکتی ہے ۔تبدےلی اچھی بھی ہے او بری بھی ۔تبدےلی کے بعض انقلابی فےصلے جہاں قوموں کو نئی زندگی ،درست سمت اور عروج کا باعث بنتے ہےں وہاں کچھ فےصلے قوموں کو نقصان سے دوچار کر کے ان کے ترقی کی جانب سفر کو دہائےوں پےچھے ےعنی تنزلی کی جانب دھکےل دےتے ہےں اور پھر دوبارہ سفر خشت اول سے آغازکا متقاضی بن جاتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی ماضی مےں تبدےلےاں آتی رہےں ۔جب بھاری مےنڈےٹ کے وزےر اعظم کو فراغت نامہ دےکر جمہورےت کی رخصتی کو بھی اےک بڑی تبدےلی کا نام دےا گےا ،ےہاں بظاہر جب جمہورےت موجود ہوتی ہے تو اس مےں آمرےت کے کتنے عناصر ملے ہوتے ہےں ۔ےہی سوچ طلب حقےقت ہے اےک تبدےلی کی شکل مےں انقلاب کا وعدہ 12اکتوبر کے سورج کے ساتھ طلوع ہوا تھا اور جناب شوکت عزےز اس صبح نو کی پہلی کرن قرار پائے تھے جبکہ بلند بانگ دعوے کئے گئے لےکن وطن عزےز مےں معاشی انقلاب کے دعوے دار خط غربت کو کم کےا کرتے بڑھانے کا ہی باعث بنے ۔ہمارے ہاں کی دنےا کبھی نہےں بدلی جا سکی ۔شاےد نئی دنےا جنم لےتی ہی پرانی ہو جانے کےلئے ہے ۔پرانی دنےا کے محافظ نئی دنےا کے محافظ بن بےٹھتے ہےں اور نئی دنےا کھسکتے کھسکتے وہےں جا پہنچتی ہے جہاں وہ تمام برائےاں باہےں کھولے اس کی منتظر ہوتی ہےں جن کے چنگل سے نکل جانے کےلئے نئی دنےا تخلےق کرنے کی زحمت اٹھائی گئی ہوتی ہے ۔وقت کا جامہ ماہ و سال کی صورت مےں بدلتا ہے ۔ماہ و سال کی تبدےلی اپنے ساتھ نظرےات و خےالات کی تبدےلی لےکر طلوع ہوتی ہے ،پھر سےاسی تبدےلےاں رونما ہوتی ہےں ،منظر بدل جاتے ہےں ،نام بدل جاتے ہےں ،چہرے بدلتے ہےں لےکن کہانی وہی پرانی جس کا اعادہ بار بار ہوتا رہا ہے ۔ہمارے ہاں اسلامی تبدےلی لانے کے مدعی بھی پرجوش ہےں ۔ہمارا رومان تو ضرور اس سے وابستہ ہے لےکن دکھائی اےسا دےتا ہے کہ کبھی اس تبدےلی کے پرچارک آگئے تو شاےد ےہ مسائل و مصائب مےں اضافے کے کوئی کار خےر انجام نہ دے پائےں کےونکہ ان موجودہ داعےان تبدےلی کی زندگےاں ہمارے سامنے ہےں ۔ماضی کو حال کے تناظر مےں دےکھا جائے تو بھٹو حکومت کیخلاف سات ستاروں کا اتحاد اور نظام مصطفےٰ لانے کے سہانے سپنے جن کی کبھی وعدہ وفائی نہ ہو سکی عوام نہےں بھولے ۔ہمارے ہاں ہمےشہ سےاسی جماعتےں اقتدار مےں آنے کے بعد مکروفن کی سےاست مےں مبتلا ہو جاتی رہےں اور وعدوں کی پاسداری بھولنا ان کا شےوہ رہا ۔ ہمارے ہاں تو اسمبلےوں کے اراکےن کو ٹکٹ کےلئے منتخب کرنے کا طرےقہ ہی اتنا ناقص ہے جس مےں قےادت سے قربت ،خوشامد اور سفارش کو ہی مد نظر رکھا جاتا ہے ۔دوسرے ٹکٹ کے حصول کےلئے صاحب حےثےت اور ثروت مند ہونا ہی اہم بنےادی شرط اور ےہی مےرٹ ہے ۔ معزز قارئےن ماضی قرےب مےں عوام کسی بڑی تبدےلی کے منتظر تھے اور تبدےلی کے گےت الاپ رہے تھے ،وہ اےسی تبدےلی کے خواہشمند تھے جو حقےقی اور عوامی امنگوں کی ترجمان ہو ،جو انہےں ےاسےت،غربت اور کرپشن سے نجات دلا کر ان کےلئے نجات دہندہ ثابت ہو ،وہ اےسے نئے چہروں اور حکمرانوں کی جستجو مےں تھے جو ان کو ماےوسی و محرومی اور غربت کے جال سے نکال سکےں لےکن نئے چہروں کی آمد سے ےہی عقدہ کھلا کہ،وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔بلکہ پہلے سے بھی ابتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔اقتدار کے اےوانوں مےں تبدےلےاں آتی رہی ہےں اور آتی رہےں گی لےکن آج قابل غور ےہی حقےقت ہے کہ جس خوشگوار تبدےلی کے عوام متمنی تھے ،حالات کے جس تغےر کی وہ بات کر رہے تھے جس کےلئے وہ نعرے بلند کر رہے تھے وہ اس طرح ممکن ہو سکتی ہے ۔ آج محض سےاسی جدوجہد سے کوئی بڑی تبدےلی وقوع پذےر ہوتی دکھائی نہےں دےتی ۔لوگوں کی معاشی حالات مےں بہتری کے بظاہر امکانات دکھائی نہےں دےتے ۔کسی بھی تبدےلی کےلئے ضروری ہے کہ ملک مےں سماجی اصلاح کی اےک بڑی تحرےک برپا ہو جس مےں عوام کے سماجی روےے کی اصلاح ہو ۔ملک مےں اےک شعوری تبدےلی کے ظہور سے ہر کوئی اپنی صلاحےت اور حالات کی موزونےت کے مطابق اپنے لئے دائرہ کار اور لائحہ عمل کا تعےن کرے ۔سماج کی اس پہنچ پر معاونت سے مشترکہ مساعی کا ظہور معاشرتی تبدےلےوں کی صورت مےں ہونے لگتا ہے ۔ترقی کے راستے مےں مزاہم افراد اور ادارے بھی ہوتے ہےں جو حالات کو جوں کا توں رکھنے کے خواہشمند ہوتے ہےں ۔اس لئے اےک پوری قوم ہی مجموعی تبدےلی لا سکتی ہے ۔ملت کے تمام افراد کو اس مےں حصہ دار بننا پڑتا ہے ۔جب کسی خزاں گزےدہ گلشن پر بہار آئے تو پہلے ان اشجار سے پھوٹتی ہے جن کے رگ و پے مےں نمو کی صلاحےتےں دوسروں سے زےادہ ہوتی ہےں اور وہ پھلنے پھولنے کےلئے تےار اور بے قرار ہوتے ہےں لےکن جب بہار پر پورا جوبن آ جائے تو ےہ گلشن گلشن،آنگن آنگن خوشبوﺅں اور رنگوں کے حسےن تحفے بانٹتی چلی جاتی ہے اور باغ کے ہر گل بوٹے اور پرندے کے من مےں بہار کے تحفے سمےٹتے چلے جانے کی خواہش چٹکےاں لےنے لگتی ہے ۔اےک ترقی پذےر ملک کے افراد اور ادارے بھی صرف ترقی کی بہار کو باغ کے گل بوٹوں کی طرح لوٹ سکتے ہےں اگر وہ اپنے آپ کو ترقی کی پو پھٹتے ہی متحرک اور فعال بنا لےں ۔ وطن عزےزکے معاشی استحکام کے امکانات کو حقےقت مےں اسی وقت بدلا جا سکتا ہے جب افراد ، ادارے اور حکومت اپنی اپنی کھےتےاں سےنچنے کےلئے تےار رہےں تا کہ اچھے موسم ،وافر پانی اور زرخےز مٹی سے پورا پورا استفادہ کر کے پاکستان کو اےک روشن اور خوشحال ملک بنانے کی کوششوں کا آغاز کےا جا سکے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے افرادی قوت اور ادارہ جاتی طاقت کو درست سمت استعمال کر کے افراد مےں مزےد قوت اور اداروں مےں استعداد پےدا کرنا ہوگی۔حالات بدلنے کےلئے متعلقہ اداروں کا منظم اور موثر ہونا شرط اول ہے ۔جب تبدےلی کی ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو ےہ ہر سو ٹھنڈک کا احساس پھےلاتی چلی جاتی ہے اور مون سون کی ہواﺅں کے قدرتی نظام کی طرح ےہ نظام بھی رفتہ رفتہ خود کار ہو کر خوش حالی ،نمو ،روئےدگی اور ہرےالی کا نقےب بن جاتا ہے ۔اب دےکھنا ےہ ہے کہ کےا ہمارے ہاں سےاسی تنظےمےں عوام مےں جڑےں مضبوط بنائے ہوئے ہےں اور لوگوں کے دلوں مےں اپنا مقام رکھتی ہےں ۔کےا اےسی خوبےاں رکھنے والی تنظےمےں اس وقت موجود ہےں ۔ موجودہ حکمران پارٹی بھی اب تک مختلف افراد اور پارٹےوں کی مرہون منت ہے اور ےہ تمام پارٹےاں عوام کی مجموعی حماےت سے محروم ہےں۔وطن عزےز مےں جاگےرداری اور سرماےہ داری نظام کا خاتمہ ممکن نہےں بناےا جا سکا ۔ لاکھوں عوام اپنی مرضی سے کسی سےاسی فکر سے وابستگی اختےار نہےں کر سکتے ۔ےہ سرداروں اور جاگےر داروں کے ہی مطےع ہےں ۔اسی طرح عوام کی اےک بڑی تعداد حقےقی طور پر متحرک ہونے سے معذور ہے ۔چہروں کے بدلنے سے تقدےر نہےں بدلتی ،سوار کی تبدےلی سے بات نہےں بنتی ۔نظام کی تبدےلی کےلئے جو لوگ صحےح معنوں مےں جدوجہد کرتے ہےں وہ اپنے مد مقابل نظام ظلم سے کسی بھی مرحلے پر کبھی کمپرومائز نہےں کرتے ۔پےپلز پارٹی بھی بڑی سماجی تبدےلےوں کی دعوے دار نہےں بلکہ سےاسی عمل اور عوامی حماےت کی خاطر رواےتی طرےقوں پر ہی عمل پےارا ہے ۔مسلم لےگ ن بھی تاجرانہ مفادات سے بالا تر ہو کر عوام کی وسےع امنگوں کی نمائندگی کرتی دکھائی نہےں دےتی ۔عمران خان کی تحرےک انصاف مےں بھی سب مےکدوں کے پروہت جگہ پا گئے ہےں جن سے تبدےلی کی توقعات خےال خام ہے اور نہ ہی اس جماعت نے ملکی مسائل کے حل کےلئے کوئی نئے آئےڈےاز ،چارٹر ےا انقلابی تصورات پر مبنی باضابطہ ڈھانچہ تشکےل دےا ہے ۔دوسرے ےہ تےنوں پارٹےاں آزمائی جا چکی ہےں اور آزمودہ را آزمودن جہل است ۔حقائق و اسباب کے پس منظر سے ےہی نتےجہ اخذ ہوتا ہے کہ وطن عزےز مےں مستقبل قرےب مےں کسی انقلابی تبدےلی کے امکانات معدوم ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے