کالم

کےا پولےس کے روےے کبھی تبدےل ہوں گے ؟

سوشل مےڈےا پر سانحہ بہاولپور کے تمام حقائق منظر عام پر آ چکے اور اس سانحہ کو گزرے بھی اےک وقت بےت چکا ،عوام کو آگاہی بھی مل چکی کہ جس طرح پولےس اور پاک فوج آمنے سامنے آگئےں ۔سوشل مےڈےا پر اس حوالے سے بڑے رنگ برنگے تبصرے منظر عام پر آئے ۔ کسی نے پولےس کے بد کردار اور بد عنوان آفےسران کو ذمہ دار قرار دےا تو کسی نے بغض مےں فوج پر کےچڑ اچھالنا اپنا فرض منصبی جانا اور بہت سوں نے پولےس کےساتھ جو کچھ ہوا اسے مکافات عمل کا ہی اےک حصہ قرار دےا ۔طاقت کے نشے مےں چادر اور چار دےواری کے تقدس کی پامالی کوئی نئی بات نہےں ۔اس حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ ہمارے ملک مےں مختلف سطح پر اختےارات کا ناجائز اور غےر قانونی استعمال ہوتا ہے اور پولےس اس مےں سب سے آگے ہے اور اختےارات کا ےہ استعمال اس قدر زےادہ ہے کہ پاکستان مےں پولےس گردی کی اصطلاح رائج ہو گئی ہے ۔بغےر وارنٹ کے کسی کے گھر مےں داخل ہو جانا ،مطلوبہ شخص نہ ملے تو رشتہ داروں اور عزےز و اقرباءکو اٹھا لے جانا ،گھروں مےں توڑ پھوڑ کرنا روزانہ کا معمول بن چکا ہے ۔دنےا بھر مےں پولےس تحفظ ،سوشل سروس اور عوامی خدمت گار کی علامت سمجھی جاتی ہے لےکن ہمارے ہاں پولےس دہشت ،فرعونےت ،ظلم و بربرےت اور جرائم پےشہ عناصر کی سر پرست کے طور پر پہچانی جاتی ہے ۔کسی شاعر نے کےا خوب کہا ہے کہ حکم حاکم ہے کہ اس محکمہ عدل کے بےچ ،دست فرےاد کو اونچا نہ کرے فرےادی ۔کسی بھی معاشرے کی درست نہج اور صحےح بنےادوں پر تشکےل و ترتےب مےں انسانی روےوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔جب کسی عہدہ پر متمکن صاحب اختےار ہی من مانے اختےارات کا کلہاڑا چلانے لگےں تو بے اختےار عوام کا ان سے کسی خےر کی توقع رکھنا غلط فہمی ےا نادانی ہی قرار دےا جا سکتا ہے ۔ےہ حقےقت اٹل ہے کہ جب تک با اختےاروں کی من موج سے کی جانے والی کاروائےوں مےں رکاوٹ پےدا نہ ہو اولاد آدم کی پرےشانےوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ سکھ کا سانس لے سکتا ہے ۔ قوانےن تو عوام کی سہولت کےلئے ہونے چاہےئں لےکن وہی قوانےن جنہےں عوام کےلئے رہنما اصول بننا تھا وہ عوام کی راہ مےں جگہ جگہ کانٹے بکھےر رہے ہےں ۔ٹرےفک کے قوانےن مقررہ حد سے زےادہ سوارےاں بٹھانے سے روکتے ہےں مگر گاڑےوں کی کمی پوری نہےں کی جاتی ۔گاڑےوں کے کاغذات چےک کرنے کا نظام تو موجود ہے لےکن چےکنگ بس کے اڈوں پر نہےں بلکہ سڑکوں پر چلتے ہوئے ہوتی ہے تا کہ سوارےاں پرےشان ہوں اور ان کا وقت بھی ضائع ہو ۔دنےا گلوبل وےلج مےں تبدےل ہو چکی ہے ،مہذب دنےا سے اگر پاکستان کا موازنہ کےا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم جنگل کے باسی ہےں جہاں نہ کوئی قانون ہے نہ ضابطہ اخلاق ۔ ہمارے تھانوں مےں لوگوں کو پکڑنا معمول ہے ۔ان کی اکثرےت کو حراست مےں رکھنے کا مقصد ہی مک مکا کرنا ہوتا ہے اور مشاہدہ گواہ ہے کہ جےسے جےسے ڈےل ہوتی جاتی ہے لوگ آزاد ہوتے جاتے ہےں اور جن کی ڈےل نہےں ہوتی ان پر مقدمات کی بھرمار کر دی جاتی ہے ۔ان تمام حقائق سے عام شہری ،انتطامی افسران ،سےاسی قائدےن اور سماجی زعما ءسب آگاہی رکھتے ہےں لےکن شومئی قسمت کہ صورتحال مےں تبدےلی کے آثار ظاہر نہےں ہو رہے ۔پولےس کی کارکردگی بہتر بنانے کےلئے ہر حکومت مقدور بھر کوشش کرتی رہی ۔نئی گاڑےوں کی فراہمی ،تنخواہوں مےں اضافہ ،نفری کی کمی دور کرنا ،پولےس ٹرےننگ کےلئے جدےد کورسزاور سمےنارز کا انعقاد جےسے اقدامات کئے گئے لےکن پولےس کی عمومی کارکردگی پر ہر حکومت نے اظہار ماےوسی اور بڑے پےمانے پر کرپشن کا اعتراف کےا ۔ خےال تھا کہ پولےس فورس مےں پڑھے لکھے نوجوانوں کی آمد سے بہتری اور مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے لےکن شاےد ”ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد“ وہ بھی سسٹم کا حصہ بن چکے ہےں اور ےہ بھی کڑوی حقےقت ہے کہ سسٹم کا حصہ نہ بننے والوں کو سسٹم قبول ہی نہےں کرتا ۔وطن عزےز کی عدالتےں بھی اپنے بےانات مےں اکثر پولےس کے کردار اور روےے پر کڑی تنقےد کرتی رہتی ہےں۔پولےس کی زےادتےوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کی باتےں کی جاتی ہےں لےکن اختےارات کا غلط اور ناجائز استعمال جاری ہے ۔پولےس فورس مےں فکری تبدےلی کا بھی فقدان ہے ۔اکثر اہلکار عوام کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہےں ۔کسی پولےس اہلکار کے خلاف لگوائی گئی انکوائری کبھی بھی نتےجہ خےز نہےں ہو سکی کےونکہ آج کا اےس اےچ او براہ راست حکام بالا سے تعلق اور سےاسی اثر و رسوخ کا مالک اور سےاسی لوگوں کا ہی سفارشی ہوتا ہے اور انکے مقاصد کا ہی پاسبان ۔اس کے خلاف چلنا ،اسے تبدےل کرانا ےا سزا دلوانا ناممکنات مےں سے ہوتا ہے ،دوسرے داد رسی کی اپےل اعلیٰ افسر سے ہوتی ہوئی نےچے کے افسر تک چلی جاتی ہے جو اپنے ساتھی کا خےر خواہ ہونے کےساتھ اسے غلطی کا ذمہ دار ٹھہرانے سے گرےزاں ہوتا ہے ۔لاتعدادافراد جھوٹے مقدما ت اور پولےس کی زےادتےوں کے خلاف احتجاج کےلئے بھی تےار نہےں ہوتے کےوں کہ وہ اپنے مےں پولےس دشمنی کی ہمت نہےں پاتے ۔ حال ہی مےں پنجاب پولےس مےں منشےات فروشوں کے سہولت کار پولےس افسر و اہلکاروں کی رپورٹ پر ان کے خلاف کاروائی کی بجائے مجاز حکام نے انہےں مشورہ دےا کہ وہ عدالت سے رجوع کر کے رپورٹس تےار کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرےں تاہم بعد ازاں منشےات فروشوں کے سہولت کاروں کو ماتحت افسران کی رپورٹ پر کلئےر کر دےا گےا ۔اس طرح وہ اپنے کام دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے ہےں ۔ماضی مےں بھی پنجاب پولےس کے افسران اور اہلکاروں کے گسٹ باسز مالکان منشےات اور قمار بازی کے اڈوں کے مالکان کی سر پرستی کرتے اور ان سے باقاعدہ حصہ وصول کرتے ۔لاہور مےں اس رپورٹ کے لےک ہونے پر اس وقت کے سی سی پی او بی اے ناصر نے تحقےقات کا حکم دےا تھا جبکہ رپورٹ کی بنےاد پر کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی کر کے ضلع بدر کر دےا گےا لےکن اب ےہی افسران پر وموٹ ہو کر دوبارہ اپنے اضلاع مےں تعےنات اور اپنی ڈےوٹی ادا کر رہے ہےں ۔مشاہدہ و تجربہ اسی حقےقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان مےں جس کسی کے پاس بھی اختےار ہوتا ہے وہ اعتدال مےں نہےں رہتا ،خواہ وکلاءتحرےک کے نتےجے مےں ےہ طبقہ طاقتور ہو جائے اور خواہ عدلےہ ےا مےڈےا ۔بہاولنگر واقعہ مےں وائرل ہونے والی وےڈےوز مےں پاک فوج کے جوانوں کی طرف سے پنجاب پولےس کے اہلکاروں پر تشدد نے بھی کئی سوالات کو جنم دےا کےونکہ پولےس اہلکاروں کے غلط افعال کی تصحےح کا ےہ طرےقہ کار بھی کسی طرح قابل قبول نہےں ہو سکتا ۔ےاد رہے کہ ےہ پہلا واقعہ نہےں تھا ۔اس سے پہلے بھی سوشل مےڈےا پر کئی اےسے واقعات منظر عام پر آ چکے ہےں چاہے وہ موٹر وے پولےس کے افسر کی فوج کے جوانوں کے ہاتھوں پٹائی کا واقعہ ہو ےا پھر کرنل کی بےوی کی پولےس اہلکار سے منہ ماری ۔آئےن و قانون کے ماہرےن کے نزدےک پاکستان کی موجودہ زبوں حالی کی وجوہات مےں سب سے بڑی وجہ اداروں کا اپنے آئےنی و قانونی دائرے سے نکل کر دوسرے اداروں کے آئےنی و قانونی اختےارات مےں مداخلت کرنا ہے ،چاہے وہ مداخلت پولےس کی جانب سے ہو ،عدالتوں کی جانب سے ہو ۔اس مےں کوئی شک نہےں کہ محکمہ پولےس کا عمومی متشددانہ روےہ ڈھکا چھپا نہےں لےکن اس کا ےہ مطلب بھی نہےں کہ کوئی ادارہ ،کوئی تنظےم ےا کوئی فرد غےر آئےنی و غےر قانونی طرےقہ کار اپنائے ۔کسی بھی جمہوری معاشرے مےں قانون کی حکمرانی بنےادی اہمےت رکھتی ہے ۔جب رےاستی ادارے اور کارندے اپنے فرائض کی انجام دہی مےں آمرانہ اور مادر پدر آزادانہ جبر پرستی پر مبنی طرز عمل اختےار کرتے ہےں تو پھر بہاولنگر جےسے واقعات ہی ظہور پذےر ہوتے ہےں ۔خےال اغلب ہے کہ پولےس مےں اس روےے کی شروعات کا سبب ان کو قانون کے نفاذ اور امن و امان برقرار رکھنے کی ڈےوٹی سے ہٹا کر سےاست مےں رنگنے اور حکمرانوں کےلئے سےاسی مفاد کے استعمال کے باعث ہوا ۔چند ماہ پہلے ٹرانسپےرنسی انٹر نےشنل نے پاکستان کا نےشنل کرپشن پرسےپشن سروے جاری کےا تھا جس مےں پولےس کو ملک کا کرپٹ ترےن ادارہ قرار دےا گےا ۔ےہ اےک اےسی حقےقت ہے کہ جس کو جھٹلاےا نہےں جا سکتا کہ ہماری پولےس قانون کی حکمرانی کی بجائے ہر حکومت وقت کی غلامی کو اپنا فخر سمجھتی ہے ۔اختےارات کے ناجائز استعمال کی وجہ اس ادارے مےں چےک اےنڈ بےلنس کے کسی موثر نظام کا موجود نہ ہونا ہے ۔نتےجتاً بعض اوقات پولےس اہلکار منفی سر گرمےوں مےں ملوث ،جرائم پےشہ عناصر کی سرپرستی اور حکمرانوں کی جی حضوری مےں مصروف ہو جاتے ہےں ۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے پولےس کو دی گئی رےکارڈ سہولےات اور پروموشن کے باوجود ان کی کاوشےں ماند پڑتی نظر آتی ہےں کےونکہ بڑے شہروں مےں امن و مان کی صورت حال کنٹرول کرنے مےں ان کی ٹےم خاطر خواہ کامےابی حاصل کرنے مےں ناکام دکھائی دے رہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے