کالم

کے ڈی اے نکما اور بے کار

rohail akbar

ویسے تو ملک کا ہر ادارہ ہی خراب اور ملکی معیشت پر بوجھ ہے جہاں عام عادمی کو ریلیف ملنے کی بجائے پریشانیاں اور مصیبیتیں ہی ملتی ہیں کراچی چونکہ ملک کاسب سے بڑا شہر ہے اور جو کچھ بڑے شہروں میں ہوتا ہے اس سے بڑھ کر چھوٹے شہروں میں اس پر عمل ہوتا ہے کراچی کی تعمیر وترقی میںجتنا کام کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ہے تو اس سے بڑھ کر اس شہر کو خراب کرنے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے جہاں کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں تو ہیں ہی ساتھ میں اس اداے کو نکمے اور بے کار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا اسی طرح کے ادارے ملک کے مختلف شہروں میں کام کررہے ہیں لاہور میںایل ڈی اے ہے اسلام آباد میں سی ڈی اے ہے فیصل آباد میں ایف ڈی اے ہے ملتان میں ایم ڈی اے ہے اور اسی طرح کے ادارے ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں بھی ہیں لیکن ان سب کی کارکردگی دیکھنی ہو تو نکمے اور بے کار ادارے کے ڈی اے سے ملا کر دیکھ لیں کسی قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا میں نے کے ڈی اے کا ذکر خاص اس لیے کیا ہے کہ اسے سندھ ہائیکورٹ نے نکما اور بے کار ادارہ قرار دیا ہے ہمارے ملک میں عدالتیں چونکہ آزاد ہیں اور عام آدمی کے مسائل کو بخوبی سمجھتی ہیں اس لیے وہ جو محسوس کرتی ہیں وہ بلا جھجک کہہ دیتی ہیںکراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی تفصیل پڑھنے سے پہلے عدالت عالیہ نے کے ڈی اے کے بارے میں جو کہا اسکی کا پس منظر بھی پڑھ لیں جو سندھ ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں وکیل نے مو¿قف دیا کہ درخواست گزار فیض محمد لاشاری نے گلستان جوہر بلاک 40 میں 1991ءمیں پلاٹ نمبر اے 2 اور اے 3 خریدا تھا مگر اس پلاٹ پر قبضہ کرلیا گیا احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے پر عدالت کے ڈی اے حکام پر برہم ہوگئی اور ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے ایک تو اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا دوسرا عدالت حکم دے تو اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا بار بار کہا جا رہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں اگر ہم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانا شروع کردیا تو درخواست گزار کے گھر جاکر پلاٹ دے کر آئیں گے اس موقعہ پر جسٹس ندیم اختر نے ڈائریکٹر لینڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کے ڈی اے قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہاجسٹس عبدالرحمن نے ڈائریکٹر لینڈ سے استفسار کیا کہ سوک سینٹر میں آپ کا دفتر کس فلور پر ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے کہا کہ کے ڈی اے کا دفتر تیسری منزل پر ہے عدالت نے استفسار کیا کہ اینٹی انکروچمنٹ والوں کا دفتر کس فلور ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے بتایا کہ ان کا دفتر بھی تیسری منزل پر ہے عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی عمارت کے ایک ہی فلو پر اینٹی انکروچمنٹ والوں کا بھی دفتر ہے تو قبضہ ختم کیوں نہیں کرارہے؟ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اینٹی انکروچمنٹ والے جواب نہیں دیتے ہم آخری مہلت دے رہے ہیں درخواست گزار کو متبادل پلاٹ فراہم کریں یا قبضہ ختم کرائیں یہ تو تھی کے ڈی اے کی حالت جو نہ صرف قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ انہیں موقع اور ماحول بھی فراہم کرتے ہیں کہ عام شہریوں کی جائیدادوں پر بلاجھجک قبضے کرو اور کچھ اسی طرح کی صورتحال ملک بھی میںقائم ایسے اداروں کی ہے جہاں سوائے لوٹ مار اور کرپشن کے کوئی کام نہیں ہوتا ہر شہر میں زرعی زمینوں پر ھڑا دھڑ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں اب اگر ہم کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (KDA)کے قیام اور مقصد پر بات کریں تو 1957 میں کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ اور کراچی مشترکہ واٹر بورڈ کو 1957 کے صدر آرڈر نمبر 5 کے تحت ملا کر کیا گیا تھاجو نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں 13.12.1957 میں شائع ہوا تھا کے ڈی اے کراچی کے واٹر سپلائی سسٹم اور بلڈنگ کنٹرول مینجمنٹ کا ذمہ دار تھا لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کے بعد کے ڈی اے اب درج ذیل کاموں کےلئے ذمہ دار ہے پلاننگ، کوآرڈینیشن اور رینڈرنگ پلاننگ ایڈوائس ، لینڈ ڈویلپمنٹ،ہاو¿سنگ سکیم (عوامی ہاو¿سنگ سکیم، کم لاگت ہاو¿سنگ سکیم) ، سڑکیں اور پل ، ری ڈویلپمنٹ ، پائپوں کی مینوفیکچرنگ، ڈیزائن بیورو، اینٹی انکروچمنٹ اینڈ ری سیٹلمنٹ، تحقیق و اشاعت ، ہارٹیکلچر، پارکس اور تفریح، لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن، اکاو¿نٹنگ سسٹم، آرکائیونگ آف لینڈ ریکارڈ، لینڈ ایکوزیشن اور چارجڈ پارکنگ یہ جتنے بھی شعبے ہیں اس وقت کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا گڑھ بن چکے ہیں کراچی کے بازاروں میں سے گزرنا محال ہے کیونکہ کے ڈی اے کے عملہ نے وہاں کی مقامی تاجر یونین کی ملی بھگت سے ہر فٹ پاتھ پر قبضہ کروا رکھا ہے ہر دوکان کے باہر غیر قانونی اڈے لگے ہوئے ہیں اور بس اڈوں کا تو حال ہی نہ پوچھیں کہ وہاں کیا حشر کیا ہوا ہے غیر قانونی ہاﺅسنگ سکیموں ،پلازوں اور مارکیٹوں کی بھر مار ہے کے ڈی اے کے قیام کے وقت اس اتھارٹی کا بنیادی کام کراچی شہر کو ترقی دینا تھا وقت شہر کی آبادی تقریباً 16 لاکھ تھی جو کہ اب بڑھ کر سوا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جہاں لوگوں کو رہائش کے سنگین مسائل ہیں اوراتھارٹی کے پاس سوائے کرپشن اور لوٹ مار کے اور کوئی کام نہیں یہ صرف کے ڈی اے میں ہی ایسا نہیں ہوتا بلکہ کے ڈی اے کی طرح ایل ڈی اے اور سی ڈی اے بھی ایسے ہی ادارے ہیں جہاں جائز کام بھی ناجائز طریقے سے کروانے پڑتے ہیں اگر اپنا سیدھا سادہ کام سیدھے سادھے طریقے سے کروانے کےلئے کوئی سیدھا سادھا انسان ان اداروں میںبیٹھے ہوئے کرپٹ مافیا کے پاس چلا گیا تو پھر اسکا حشر بھی فاروق آزاد جیسا ہی ہوتا ہے فاروق آزاد لاہور کا ایک بااثر سیاسی کشمیری شہری ہے جو ہر وقت دوسروں کے کام کروا کر خوشی محسوس کرتا ہے لیکن جب اسے اپنے مکان کےلئے ایل ڈی اے جانا پڑا تو پٹواری سے لیکر ڈائریکٹر تک نے اسکی ناک سے لیکریں نکلوادی کیونکہ کہ ہمارے تمام اداروں میں ایک مافیا بیٹھا ہوا ہے جو پیسے دیکر تعیناتیاں کرواتے ہیں اور پھر ان پیسوں کو ڈبل کرنے کے چکر میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں یہ صرف ایک ادارے کا ہی حال نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ہر ادارے کی یہی صورتحال ہے جہاں لوٹ مار تو ہے ہی ساتھ میں لوگوں کو تنگ کرنا بھی انکا شوق ہے نہ جانے انکا احساس ختم ہو گیا یا پھر انکے اندر کا انسان مر گیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے