کالم

گجرات فسادات میں بی جے پی ملوث

riaz chu

پاکستان نے 2002 کے گجرات کے فسادات کے دوران مسلم مخالف تشدد میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت کے براہ راست ملوث ہونے کی تصدیق پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ بھارت مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری طور پر ایک آزاد انکوائری کمیشن تشکیل دے۔25 نومبر کو بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کے وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2002 میں بطور وزیر اعلیٰ گجرات سماج دشمن عناصر کو سبق سکھایا تھا۔ وزیراعظم نریندر بھائی (مودی) کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے ایسا سبق پڑھایا کہ انہیں 2022 تک کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں امن قائم کر دیا۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا کے حالیہ بیان نے پاکستان کے اس دیرینہ دعوے کی تصدیق کی ہے کہ بی جے پی کی موجودہ بھارتی حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی جو ا±س وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، وہ گودھرا میں مسلم مخالف فسادات کے دوران اور مسلمانوں کے قتل عام کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ اس امر کی مزید تصدیق بالواسطہ طور پر بھارتی وزیر داخلہ نے کی ہے، جنہوں نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ گجرات فسادات کے ذمہ داروں کو سبق سکھایا گیا ہے اور بی جے پی کے فیصلہ کن اقدامات سے گجرات میں مستقل امن قائم ہوا ہے۔یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے انسانیت کے خلاف جرائم صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی فائدے کے لیے کیے گئے۔ گجرات سانحے کے 2 دہائیوں بعد بی جے پی ایک بار پھر اپنی تفرقہ انگیز پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں بھارت کا اپنی اقلیتوں خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سلوک امتیازی، توہین آمیز اور نفرت اور تشدد پر مبنی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے وزیراعظم نریندر مودی کو 2002 کے گجرات فسادات کے مقدمے سے بری کیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ان فسادات میں شہید ہونے والے احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی درخواست خارج کر دی۔ذکیہ جعفری نے اپنی درخواست میں 2002 کے گجرات فسادات کیس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت 59 لوگوں کو سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی طرف سے دی گئی ’کلین چٹ‘ کو چیلنج کیا تھا۔ان فسادات کا آغاز ایک ٹرین میں آگ لگنے اور اس سے 60 ہندو یاتریوں کی ہلاکت سے ہوا تھا جس کے بعد ہنگامہ آرائی کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا جس کے دوران لگ بھگ 1000 سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، شہید کیے گئے۔گجرات فسادات بھارت میں مذہبی تشدد کے بدترین فسادات میں سے ایک تھے۔ احسان جعفری کانگریس کے سابق رکن پارلیمان تھے جو ان فسادات کے دوران مارے جانے والوں میں شامل تھے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گجرات فسادات میں 1044 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں 790 مسلمان اور 254 ہندو تھے۔ تاہم غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس کے دوگنا سے زیادہ تھی۔خصوصی تفتیشی ٹیم نے فسادات کے تقریباً ایک دہائی بعد 8 فروری 2012 کو سپریم کورٹ میں اپنی کلوزر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی اور 63 دیگر سینیئر حکومتی اہلکاروں کے خلاف "مقدمات قائم کرنے کے لائق کوئی ثبوت نہیں ہے۔” ذکیہ جعفری نے فرقہ وارانہ فسادات میں سیاسی رہنماو¿ں اور پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے گجرات فسادات کی ازسرنوانکوائری کی درخواست کی تھی۔گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قتل و غارت کی سرپرستی کی۔ ہندو بلوائیوں کیلئے مسلمانوں کا قتل انتقام نہیں بلکہ کھیل کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ریاستی پولیس موجود تھی لیکن بالکل لاتعلق۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ یہ شیطانی کھیل تین راتیں اور تین دن تک جاری رہا۔ ہندو دہشت گردوں سے معصوم بچے یا بوڑھے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ بہت سے بچوں اور عورتوں نے چھتوں سے ہندو ہمسائیوں کے گھر کود کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہمسائیوں نے انتہائی بے رحمی سے انہیں ہندو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا۔یہاں تک کہ ہزاروں مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں پناہ لینی پڑی۔ اسی دوران لڑکیوں کے ایک سکول کو بھی پناہ گاہ میں تبدیل کر کے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ جن میں اکثریت بچوں، کم سن و نوجوان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کی تھی کہ اچانک ایک رات ہندو دہشت گردوں نے سکول پر دھاوا بول دیا۔ صبح ہونے تک وہاں ایک بھی پناہ گزیں زندہ سلامت نہیں بچا تھا۔ تین دنوں میں گجرات میں ایک بھی مسجد سلامت نہیں رہنے دی گئی۔ یہاں تک کہ احمد آباد میں صوفی بزرگ ولی گجراتی کی خانقاہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri