بابا کرمو آج میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تو ہاتھ میں آئین کی کتاب تھی ۔ پوچھا اس کتاب کی آپ کو کیا ضرورت پیش آئی؟ جواب ملا کہ اس کے چرچے سن رکھے تھے سوچا اسے پڑھ کر دیکھ لیا جائے ۔بابا کرمو نے مجھ سے پوچھا کیا آپ نے اسے پڑھا ہے؟ کہاجب ضرورت پڑنی ہے تو ورنہ نہیں۔ کہا میں نے اسے سمجھ کر پڑھا ہے۔ پڑھ کر اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ کتاب ہم نے نہیں لکھی یہ کاپی پیسٹ ہے۔ اس لئے اس آئین کو دل سے نہیں مانتے اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے بعض ججز فیصلہ لکھتے وقت اپنی کرتے ہیں آئین کی پرواہ نہیں کرتے ۔ میں نے کہا ہمارا کریمنل اور سول لا ءبھی ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے یہ بھی دوسرے ممالک کے قانون کی کاپی پیسٹ ہے۔ بابا کرمو نے کہا مجھے اس وقت علم ہوا جب میں نے آئین کا آرٹیکل 268 پڑھا۔ آرٹیکل 268 کی ذیلی دفعہ ایک کو پڑھنے کے بعد مجھے پتا چلا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ضرورت پیش آئی کہ ہمارا آئین کیا ہو گا ہم نے پھر طے کر لیا کہ جب تک اپنا آئین نہیں بنا پاتے ،اسی سے گزارا کرتے ہیں۔جسکے بعد انڈین ایکٹ 1935 عبوری آئین رہا اور یہی بات انڈین اینڈی پنڈنس ایکٹ میں بھی لکھی گئی تھی کہ جب تک ہم اپنا آئین نہیں بنا لیتے۔ ہم اسے مانیں گے اور برطانوی ڈومینین میںرہتے اور جارج ششم آئینی سربراہ ہوں گے۔ چنانچہ اسکے مطابق 1952تک جارج ششم ہمارے بھی آئینی سربراہ رہے اور ان کی وفات سے 23مارچ 1956 تک ملکہ برطانیہ ہماری آئینی سربراہ رہیں۔ جب ہم نے مارچ 1956میں اپنا آئین بنا لیا تو برطانوی بادشاہت بھی اسکے ساتھ ختم ہو گئی اور گورنر جنرل کا عہدہ بھی ختم ہو گیا۔یاد رہے 14 اگست 1947کو ایک پی سی او(عبوری آئینی حکم نامہ) جاری کیا گیا اور یہ اصول طے کر دیا گیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین ہمارے قوانین ہوں گے اور جب تک کسی قانون میں تبدیلی نہیں کی جاتی یہی قانون یہاں بھی رائج رہیں گے۔ آئین تو ہم نے کسی حد تک بدل لیا لیکن قانون ہم نہ بدل سکے ۔ چنانچہ 1956 میں جب ہم نے پہلا آئین بنایا تو یہی اصول اس میں بھی لکھ دیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین ہمارے قوانین ہوں گے۔یہی بات ہم نے 1962کے آئین میں بھی لکھی ۔ 1973 کا آئین آیا تو وہاں بھی آرٹیکل268 کی ذیلی دفعہ ایک میں یہی اصول طے کر دیا۔البتہ اب کی بار الفاظ بدل دیے گئے کہ تمام موجودہ قوانین ہی ہمارے قوانین کے طور پر رائج رہیں گے تاوقتیکہ بدل نہیں دیے جاتے چنانچہ وہ سارے قوانین جو1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد یہاں محکوم عوام پر مسلط کیے گئے تھے ، ہم نے اپنے قانون قرار دے کر اپنے ہاں رائج کر دیے۔ وہی1861کی پولیس، وہی 1860 کا تعزیرات پاکستان ، فہرست اٹھا کر دیکھ لیں کوئی قانون پونے دو سو سال پرانا ہے کوئی ڈیڑھ سو سال پرانا ہے ۔ برطانیہ نے1894میں لینڈ ایکویزیشن ایکٹ متعارف کرایا۔ انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ نے طے کر دیا اور ہم نے مان لیا کہ وہ تمام ججز اور بیوروکریٹ جو قیام پاکستان کے وقت برطانیہ کی سرکار کےلئے خدمات انجام دے رہے تھے ، اب نئی ریاستوں میں انہی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر چلے جائیں گے اور انہیں تمام مراعات دستیاب رہیں گی۔اب حالات یہ تھے کہ ان افسران نے یہاں ”سول سرونٹ“کے طور پر نہیں بلکہ ایک آقا کی حیثیت سے رعایا پر حکومت کی تھی۔ ان کے طور اطوار ، ان کی تربیت انہی خطوط پر ہوئی تھی کہ آپ اس رعایا کے حاکم ہو۔ چنانچہ اس سول سروس کے ساتھ حاکم کی نفسیات کا پورا ایک کلچر ہمارے حصے میں اب رچ بس چکا ہے۔ ان کی رہائش ، ان کی مراعات ، ان کے ناز نخرے آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے اس دور میں تھے۔ پولیس ، اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر وغیرہ کا منصب جو 1857 کی جنگ آزادی کے بعد خاص مقصد کےلئے تخلیق کیا گیا تھا ، آج بھی اسی رعونت و مراعات کےساتھ یہاں موجود ہیں۔ وہی پولیس ہے ۔ وہی قوانین ہیں اور وہی سب کچھ بے ۔ جس طرح آجکل بجلی کے بلوں سے عوام کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے اس وقت اس زمانے میں رعایا سے کبھی لگان کے ذریعے ان کی چمڑی ادھیڑی جاتی تھی تو کبھی ٹیکسوں اور مہنگائی کے ذریعے۔ مطلوب و مقصود وہی ہے کہ اشرافیہ اور افسر شاہی مزے میں رہے اور سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیاجائے۔اس وقت برطانیہ ایک غاصب قوت تھی اور ہندوستان محکوم۔ چنانچہ افسر شاہی اور قوانین ایک خاص سوچ کےساتھ بنائے گئے،تھے بابا کرمو نے کہا اب ہم نے دونوں کو گود لے لیا ہے اور نہ افسر شاہی کا ڈھانچہ بدلا نہ قانون۔ چنانچہ آج ہمیں یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بعض جگہوں میں کمشنر کا بنگلہ آج بھی400 کنال پر ہے جسکی وجہ سے اس بیو روکریسی کا ایک خاص مزاج ہے۔یہ اپنے فرسودہ قوانین کےساتھ ابھی تک برطانوی دور میں ہی رہ کر کام کر رہی ہے اور عوام کو رعایا سمجھتی ہے۔اسکے اخراجات ، اسکی تنخواہیں اس کا رویہ ، اس کی مراعات سب کچھ ویسا ہی ہے جو دور غلامی میں ہوا کرتا تھا۔ برطانیہ نے خود تو ہندوستان سے جانے والے افسران سے مختلف طریقوں سے نجات حاصل کر لی تھی لیکن ہم پاکستان میں ایسا کچھ نہ کر سکے۔ وہی انگریزی دور والا رویہ ، وہی زبان ، وہی بول چال ، وہی رہن سہن ، وہی مقامی لوگوں سے نفرت اور یہ ہے ہماری بیوروکریسی اور یہ ہے ہمارا قانون اور آئین ہے۔معاشی بوجھ ڈالا جاتا ہے تو عوام پر ۔ ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو عوام پر۔بیوروکریسی ججز فورسز کی مراعات اور عنایات پر کوئی بات نہیں کرتا ۔ یہ وہی صدیوں پرانے دور غلامی کے قانون کے تحت ہمارا نظام چل رہا ہے۔ لہذا بہتری کیسے آئے گی۔نئے قوانین لانے کی کوئی تیاری نہیں۔ یہاں اب انصاف کے نظام میں تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے یہ تو دکھایا جاتا ہے برطانیہ کا جج سائیکل پر جاتا اور آتا ہے۔اس پر ہم صرف ایک جج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر فخر کر سکتے ہیں جو روز صبح گھر سے پیدل چل کر سپریم کورٹ پہنچتے ہیں ۔ انکے ساتھی ججز نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ساتھی ججز پیدل نہ آئیں،سائیکل نہ چلائیں مگر ایک کوسٹر پر سپریم کورٹ آیا جایا کریں۔ گوروں کے زمانے میں گرمی کی چھٹیاں ججز کو اس لیے دی جاتیں تھیں کہ اس زمانے میں گھروں عدالتوں میں اے سی نہیں ہوتے تھے مگر اب ججز کے آفس میں اے سی کاروں میں اے سی گھروں میں اے سی عدالتوں میں اے سی۔ پھر بھی گرمی کی چھٹیاں کرتے ہیں اور ان ممالک میں جاتے ہیں جو انہیں بتاتے ہیں کہ ان کی کارگردگی سب سے بری ہے مگر پھر بھی وہی جاتے ہیں۔ اپنی جیلوں میں جو مر رہے ہیں انکی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔یہ ججز اپنی چھٹیاں کینسل کرتے اور کیس سنتے تو بہتر ہوتا۔مگر یہ گوروں کا بنایا ہوا قانون ہے جس نے انہیں چھٹیاں کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اب ان چھٹیوں کی ضرورت نہیں ۔بابا کرمو نے کہا چھٹیوں پر جانے والے ججز کو نہیں معلوم تھا کہ کیسوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں اب لاکھوں میں ہے۔ کار گردگی کی جو بری شہرت ان کی پوری دنیا میں ہے شرم کے مارے تو ملک سے باہر انہیں جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ مخصوص نشستوں کا ریویو سننا اہم تھا یا دیار غیر جا کر چھٹیاں اور تقریریں کرنا۔کہا جاتا ہے وہاں انکے خلاف احتجاج بھی ہوئے پلیز وہ کچھ نہ کیا کریں جس سے شرمندگی ہو اور ہم سب پر انگلیاں اٹھیں۔