سپہ سالار نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ترقی کے سفر میں رخنہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے والوں کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی، منفی پروپیگنڈا اور ٹرولز ترقی اور خوش حالی کےلئے کام کرنے سے نہیں روک سکتے۔ جنرل عاصم منیر نے مزید کہا معاشی استحکام کےلئے پاک فوج ہر ممکن تعاون کرے گی اور پاکستان کی معاشی ترقی کےلئے ہر ممکن مدد فراہم کرتی رہے گی۔ انھوں نے اسی ضمن میں مزید کہا فوج کی کوششیں قومی سلامتی اور قوم کی اجتماعی بھلائی میں انشاءللہ معاون ثابت ہوں گی۔اسی ضمن میں غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے یہ رجحان بن گیا ہے کہ عوام کا ایک طبقہ سوشل میڈیا پر فلسفے بگھارنے والے چند مخصوص افراد کی تقلید میں حقیقت اور فسانے کا فرق بھی ملحوظ نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ افراتفری اور انتشار کو فروغ دینے والے یہ چند ”یوٹیوبرز“ یا نام نہاد ”سوشل میڈیا انفلوئنسرز“ اپنے وقتی فائدے کیلئے ریاست کے خلاف ہی پراپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ امر بھی اب ایک کھلا راز بن چکا ہے کہ تحریک انصاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو ایک ناکام ملک کے طور پر پیش کر نے کی مکروہ سازش میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا پر بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق دانستہ طور پر پاکستان کا مخصوص عکس پیش کر کے ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خود ساختہ دانشور بسا اوقات ایسی باتیں کر دیتے ہیں جن سے انکی اپنی اصلیت ہی انکے فالورز پر آشکار ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی ایسے ہی کئی یوٹیوبرز کی فحش گوئی سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی اور انکے رفقاءکے اخلاقی اقدار پر بہت سے نا گفتہ بہ سوال اٹھائے ہیں۔ مبینہ سکینڈلز کی ایسے کہانیاں سنائی گئی ہیں جنھیں چاہ کر بھی احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کا ایک حلقہ جو ان یوٹیوبرز کی بات کو حرفِ آخر مان کر ریاستی اداروں کیخلاف شرپسندی پر اترا ہے، کیا اب وہ ان الزامات کے بعد یوٹیوبرز کی فحش گوئی پر اندھا دھند یقین کریں گے؟ سنجیدہ حلقوں کے مطابق تحریک انصاف یہ بیانیہ پیش کر رہی ہے کہ اگر اس کی قیادت کسی طرح بھی نااہل ہو گئی تو گویا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔مبصرین کے مطابق عمرانی میڈیا اپنا بیانیہ وقت وقت کے حساب سے تبدیل بھی کرتا رہتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت کے پاس اپنے الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں اس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اکثر بیرون ملک حکومتوں سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں جو دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔نسبتاً کچھ اعتدال پسند حلقوں کے مطابق اپنے غیر ملکی آقاﺅں کی مدد سے پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بیچنے میں کامیاب بھی نظر آتی ہے جس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کیا جانا ضرورت وقت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ شخصی آزادی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کےلئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہیں اور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اس امر کی ایک مثال تو دو برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے“ ۔ دوسری طرف پچھلے کچھ عرصے میں کئی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔حالانکہ کسے نہیں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں 7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں۔ علاوہ ازیں کپیٹل ہل امریکہ میں ریاست مخالف عناصر کو 18برس تک قید با مشقت کی جو سزائیں دی گئیں وہ معاملات تو اتنے تازہ ہیں کہ ان کی تما م تفصیلات سے تو پاکستان سمیت دنیا بھر کا ہر خاص و عام آگاہ ہے۔ ایسے میں وطن عزیز میں ایسی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ ہو۔ قابل ذکر ہے کہ آزادی کی قدر نہ کرنے والے ان ناشکرے عناصر کو فلسطین، مقبوضہ کشمیر،غزہ اور بھارتی مسلمانوں کے احوال کا ذرا سا بھی اندازہ ہو تو یقینا انکا طرز عمل مختلف ہو۔