پاکستان نے قابض اسرائیلی حکومت کے حالیہ بیانات کو مسترد کر دیا ہے جن میں نام نہاد ”گریٹر اسرائیل” کے قیام اور غزہ سے فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کے منصوبوں کا اشارہ دیا گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ دنیا ایسے اشتعال انگیز اور غیر قانونی عزائم کو یکسر مسترد کرے، یہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ بیانات قابض طاقت کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں، اسرائیلی قیادت اپنے غیر قانونی قبضے کو مزید مضبوط بنانا چاہتی ہے اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کیلئے عالمی کوششوں کی مکمل توہین کر رہی ہے۔ عالمی برادری کو فوری اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے اور خواب کا نام ہے جسے صہیونیزم کے بانی تھیوڈر ہرزل نے بنایا تھا۔ اس خواب کی تعبیر کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ اسرائیل کا قیام سر زمین فلسطین پر کیا جائے اور اس کی سرحدیں یروشلم سے مدینہ تک پھیل سکتی ہیں ۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مدینے منورہ تک پہنچنے کا ہے، گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینہ بھی آتا ہے، اسرائیل اگر کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے کے کسی ملک کی خیر نہیں۔ اصل مسئلہ بیت المقدس کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ مسجد اقصیٰ کا ہے۔ جب سے صہیونیوں کا قبضہ ہوا ہے تو امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اسے یہودیوں سے آزاد کرائے ۔ قابض اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ نام نہاد ”گریٹر اسرائیل” کے توسیع پسندانہ منصوبے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت قابض اسرائیل موجودہ سرحدوں سے باہر اپنی سلطنت کو پھیلانے کے خواب دیکھ رہا ہے جس میں مغرب میں مصر کے حصے اور مشرق میں اردن کے حصے شامل ہیں۔نیتن یاھو نے کہا کہ ”میں ایک ایسی مہم پر ہوں جو نسلوں پر محیط ہے۔ جیسے ماضی کی یہودی نسلیں یہاں آنے کا خواب دیکھتی رہیں، ویسے ہی آنے والی نسلیں بھی یہاں پہنچیں گی” ۔ اس نے اپنی اس خطرناک سازش کو ”یہودیوں کیلئے ایک تاریخی اور روحانی مشن” قرار دیتے ہوئے صہیونی منصوبہ بندی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب نیتن یاھو اور اس کی انتہا پسند حکومت کے وزراء بارہا اردن اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی اپنی کھلی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ”گریٹر اسرائیل” کا یہ نام نہاد منصوبہ دراصل خطے میں مزید خونریزی، زمینوں پر غاصبانہ قبضے اور عرب ممالک کی خودمختاری کی کھلی توہین کا پیش خیمہ ہے۔امریکی لے پالک اسرائیلی ریاست نے فلسطین اور اسکے نہتے عوام کا جو حشر کیا ہوا ہے اور اپنے خلاف کسی بھی عالمی دبائو’ احتجاج اور قرارداد کو خاطر میں نہیں لا رہا’ یہ اس دہشت گرد اسرائیل کا رویہ ہے جسے اس وقت دنیا کے چند ممالک کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا اور نہ اسے کوئی تسلیم کرنے پر آمادہ ہے۔ اگر صیہونی طاقتوں کے ایجنڈے کے تحت اسے گریٹر اسرائیل بنا دیا گیا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ اسرائیل دنیا میں کیا اودھم مچائے گا۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کے بعد نہ صرف اسکی بدمعاشی کا دائرہ پھیل جائیگا بلکہ وہ ہر اس ملک بالخصوص اسلامی دنیا پر چڑھ دوڑے گا جو شروع دن سے اسکے وجود کیخلاف ہے۔ پاکستان نے تو آج بھی اپنے قائد محمدعلی جناح کے فرمان کو حرزِجاں بنایا ہوا ہے’ جنہوں نے اپنے ہر جلسے’ اورہر کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر زیادہ توجہ دی اور اسرائیلی قبضے کی کھل کر مذمت کی اور فرمایا کہ ”جب تک فلسطین کو اسرائیلی تسلط سے آزادی نہیں ملتی’ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے’ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں مقبوضہ کشمیر کو بھی چھوڑنا پڑیگا کیونکہ دونوں تنازعات یکساں نوعیت کے ہیں۔” اس تناظر میں پاکستان کسی صورت نہ اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے اور نہ گریٹر اسرائیل کی حمایت کر سکتا ہے۔ صیہونی قوتوں کا تو اسرائیل کے حوالے سے اپنا ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس کے تحت وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دنیا پر دبائو بھی ڈال رہی ہیں’ اگر اس ایجنڈے کیخلاف مسلم دنیا متحد ہو جائے اور الحادی قوتوں کے گریٹر اسرائیل جیسے عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انکے اس خوفناک ایجنڈے سے اس پورے کرہ ارض کو محفوظ نہ کیا جا سکے جو اسکی تباہی کیلئے تیار کیا جارہا ہے ۔ اسرائیل، فلسطینیوں کیخلاف اپنی کارروائیاں روکنے والا نہیں اور چائنا کٹنگ کی حکمت عملی کے ذریعے مزید زمین پر قبضہ کرتا جائے گا۔خطرناک بات یہ ہے کہ اسرائیل صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گا۔ اسرائیل نے اپنی سرحدیں واضح ہی نہیں کیں، خطے کے دیگر ممالک کو بھی مستقبل میں ایسی ہی جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ صہیونی منصوبے کے مطابق اسرائیل کو ایک ‘علاقائی سپر پاور’ بننا ہے، ایسی طاقت جس سے آس پاس کے ممالک یا تو ڈریں یا پھر تسلیم کریں۔ اسرائیلی، خاص طور پر سخت گیر صہیونی، مغربی کنارے کو (جسے مذہبی متون میں ‘یہودیہ اور سامریہ’ کہا گیا ہے) مقدس علاقہ سمجھتے ہیں اور وہ کسی بھی قانون کو خاطر میں لائے بغیر اس پر قبضہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتوں کی خاص طور پر مسلم ممالک کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں، ان کے پاس اپنی بقا کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ عسکری طور پر طاقتور بنیں۔