جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے 21ویں غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں جاری مظالم کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے نہ صرف اسرائیل کی پالیسیوں کو عالمی قوانین کے منافی قرار دیا بلکہ ایک واضح اور دوٹوک موقف بھی پیش کیا۔ ان کے مطابق اسرائیلی اقدامات پورے خطے کے امن اور سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں ۔ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اسرائیلی کابینہ کے حالیہ منصوبے کو ہدفِ تنقید بنایا جس کے مطابق غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل” کے بیانیے کو ایک کھلی جارحیت اور الحاق کی کوشش قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ صرف فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو پامال نہیں کرتا بلکہ عرب دنیا اور خطے کے امن و استحکام کو بھی براہِ راست چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ اب صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں رہا بلکہ ایک ایسی علامت بن گیا ہے جہاں معصوم انسانی جانیں اور بین الاقوامی قوانین دونوں دفن ہو رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ یہ محض ایک تنازعہ نہیں بلکہ ایک ایسا انسانیت سوز المیہ ہے جس پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔وزیر خارجہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائیاں اجتماعی سزا کی واضح مثال ہیں ۔ ہسپتالوں، اسکولوں، امدادی قافلوں اور مہاجر کیمپوں کو نشانہ بنایا جانا کوئی حادثاتی عمل نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے ۔ اس طرح کی کارروائیاں عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مترادف ہیں جن پر دنیا کو فوری ردعمل دینا چاہیے۔ اسحاق ڈار نے او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ محض بیانات اور قراردادیں کافی نہیں، اب وقت ہے کہ مسلم دنیا متحد ہو کر عملی اقدامات کرے۔ ان کے مطابق او آئی سی کو اپنی سیاسی، سفارتی اور معاشی قوت استعمال کر کے اسرائیل پر دبائو ڈالنا ہوگا تاکہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو ترک کرے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ غزہ میں تباہی اور انسانی المیہ روکنے کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان کے مطابق سب سے پہلے غیر مشروط جنگ بندی ہونی چاہیے تاکہ مزید خونریزی بند کی جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانی بنیادوں پر امداد کو کسی رکاوٹ کے بغیر فلسطینی عوام تک پہنچنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی "یو این آر ڈبلیو اے” کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بحال اور سپورٹ کیا جانا چاہیے تاکہ متاثرین کی بنیادی ضروریات پوری ہوسکیں۔انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ فلسطینی زمینوں پر قبضے اور نئی بستیاں بسانے کا عمل فوری طور پر روکا جائے۔ غزہ کی تعمیر نو اور تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی فلسطینی عوام کیلئے ایک نئی امید ثابت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے سیاسی عمل کی بحالی پر زور دیا جس کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابلِ عمل راستہ ہے۔ اس حل کے تحت 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو اور القدس شریف کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔اپنی تقریر میں انہوں نے عالمی برادری کو بھی متوجہ کیا اور کہا کہ اگر اسرائیلی جنگی جرائم پر احتساب نہ ہوا تو انصاف کی بنیاد ہی ہل کر رہ جائے گی۔ ڈار نے کہا کہ عالمی اداروں خصوصا اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے اور اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے۔ یورپی یونین اور مغربی ممالک کو بھی اپنے دوہرے معیار ترک کر کے فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف پر مبنی رویہ اپنانا ہوگا۔اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ اگر بروقت اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو "گریٹر اسرائیل”کا منصوبہ صرف فلسطینیوں کیلئے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے تباہ کن ہوگا۔ اس کے اثرات مشرقِ وسطی میں مزید عدم استحکام، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں سامنے آئیں گے جو عالمی امن کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ ہوگا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا بیان دراصل ایک دوٹوک پیغام تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی تاریخی، اخلاقی اور سفارتی وابستگی پر قائم ہے۔ ان کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ الفاظ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ نہ صرف فلسطینی عوام کو انصاف مل سکے بلکہ دنیا کو ایک بڑے انسانی اور سیاسی بحران سے بھی بچایا جا سکے۔او آئی سی پلیٹ فارم پر یہ تقریر دراصل مسلم دنیا کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش تھی اور ایک واضح اشارہ بھی کہ پاکستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہے گا۔