کالم

گلزارِ دینہ

جب بھی دینہ سے گزرتا تو میرا دل مچلتا کہ میں دینہ کے ریلوے اسٹیشن پر جاؤں جہاں چند سال قبل ہندوستان سے گلزار اپنا بچپن تلاش کرنے آئے تھے۔دینہ کی ان گلیوں میں گھوموں جہاں گلزار کا بچپن گزرا اور ان لوگوں سے ملوں جو دینہ میں رہتے ہیں اور گلزار سے اُنس رکھتے ہیں۔ کئی مرتبہ کار سرکار کے سلسلہ میں دینہ سے گزر ہوا لیکن مچلتے دل کو اگلی مرتبہ کے وعدہ فردا پر ٹال کر دینہ سے گزر جاتا۔ پھر ایک روز میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی دینہ کے ریلوے اسٹیشن کی طرف موڑ دو۔اُس شام دینہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو مجھے گلزار کی دینہ ریلو ے اسٹیشن سے جڑی یادوںکی خوشبو دینہ کے ریلوے پلیٹ فارم پر ہرسوبکھری نظر آئی۔ کچھ دیر میں پلیٹ فارم پرچہل قدمی کرتا رہا۔ شام کے سائے ڈھل چکے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کے سامنے کچھ لوگ ایک بینچ پر اور چند کرسیوںپر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں کے ریلوے اسٹیشن مسافروں کے لیے تو بہت کم سہولیات کے حامل ہوتے ہیں البتہ مقامی لوگوں کے لیے ایک تفریحی مقام کے طور پر اپنا مقام قائم رکھے ہوئے ہیں۔ شام کے اوقات میں مقامی آبادی کے لوگ خراما خراما ریلوے پلیٹ فارم پر چلے آتے ہیں اور گھنٹوں گپ شپ کرنے کے ساتھ آتی جاتی ٹرینوں کو دیکھا کرتے ہیں۔ دینہ ریلوے اسٹیشن بھی مجھے ایسا ہی ایک تفریحی مقام لگا۔ اسی اثناء میں ایک ٹرین تیزی سے آئی اور دینہ ریلوے اسٹیشن پررُکے بغیر گزر گئی۔ میرے ساتھ موجود سعید الحسن نے بتایا کہ راولپنڈی سے کراچی جانے والی اکثر ٹرینیں یہاں رکے بغیر گزر جاتی ہیں۔ اُس روز ہم دینہ ریلوے اسٹیشن سے گلزار کی خوشبو سمیٹتے ہوئے واپس لوٹ آئے۔ کچھ دن بعد کارِ سرکار کے سلسلہ میں دوبارہ جہلم جانا ہوا تو ہمدم دیرینہ کوثر حسین بلال اور ڈاکٹر عباد اللہ ساجد کے ہمراہ جہلم تھے۔ کارِ سرکار کی انجام دہی کے بعد ہم بک کارنر جہلم گئے جہاں دو بھائیوں امر شاہد اور گگن شاہد نے خوبصورت و دیدہ زیب کتابوں کی اشاعت سے "کتاب گھر” سجا رکھا ۔یہاں سے ہم نے گلزار کی شاعری اور اُن کے فن پر لکھی گئی کتب خریدیں ۔ پھر دینہ کے اُس بازار گئے جس کی تنگ سی گلی میں گلزار کا شاندار آبائی گھر ہے۔ ہم نے بازار میں ایک دوکاندار سے گلزار کے گھر کی بابت معلوم کیا تو اُنہوں نے ہماری اُس گھر تک رہنمائی کی ۔ جسکے درودیوار سے گلزار کی خوشبو آ رہی تھی۔ہم نے اُس مکا ن کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک آدمی باہر آیا۔ ہم نے اُس سے گلزار کے گھر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے بخوشی گھر کے اندر جانے کی اجازت دے دی لیکن جس گھر کو یادگاری حیثیت حاصل ہونی چاہئے تھی اب اس گھر کے مکینوں کی آپس کی تقسیم سے گھر کی ہیّت کچھ بدلی ہوئی سی لگی ۔ گھرکا اندرونی منظر دیکھ کر قدرے مایوسی ہوئی کہ موجودہ مکینوں نے اس شاندار گھر کو اپنی ضرورت اور مجبوری کے سبب ایک بے ترتیب گھر میں بدل دیا ہے۔سمپورن سنگھ کالرہ عرف گلزار دینہ کے اس گھر میں کب پیدا ہوئے اس حوالے سے شمع کاظمی نے ان کی ایک نظم کا حوالہ دیا ہے ۔ شمع کاظمی لکھتی ہیں کہ سال پیدائش کا اہم حوالہ پلوٹو میں شامل ایک نظم سے بخوبی ہوتا ہے ۔
چیسیسِ کی تاریخ پوچھ لو
کب کی مینو فیکچر ہے وہ
ورنہ اکثر ٹھگ لیتے ہیں گاڑی بیچنے والے
میری چیسیسِ کی تاریخ انیس سو چونتیس ہے
گلزار کے دینہ والے گھر سے نکل کر ہم دینہ کے اس سکول میں بھی گئے جسے دیکھنے کیلئے دینہ کے اپنے دورہ کے دوران گلزار بھی گئے تھے۔ یہ وہ سکول ہے جہاں گلزار نے اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ سمپورن سنگھ کالرہ تھے۔ دینہ کے اس سکول میں انہوں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔گلزار کے اصل نام کی نسبت سے اس سکول کے ایک حصہ کو اب” گلزارکالرہ بلاک” کا نام دیا گیا ہے ۔ ہم کافی دیر تک سکول کے پرانے اور نئے حصہ میں گھومتے رہے ۔ اس خوبصور ت احساس کے ساتھ کہ یہیں کہیں قدرت نے سمپورن سنگھ کالرہ کو علم و ہنر سے گلُ و گلزار کیا اور پھروہ سمپورن سنگھ کالرہ پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرنے کے بعد گلزار کے نام سے بحیثیت شاعر ،افسانہ نگار وگیت نگار برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہوا۔ گلزار( سمپورن سنگھ کالرہ) کے سکول کو دیکھنے کے بعد ہم دینہ کے مصروف بازار سے گزرتے ہوئے دینہ سے تقریبادوکلو میٹر دور کرلاں گاؤں بھی گئے۔ جہاں گلزار کے والدین کی دینہ منتقل ہونے سے قبل آبائی حویلی تھی۔ کرلاں کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ہم نے نو تعمیر شدہ مسجد کیساتھ ایک پرانا کنواں دیکھا جس سے کسی زمانے میں رسیوں کے ڈول ڈال کر پانی نکالا جاتا تھا۔ لیکن اب کنویں میں پانی کھینچنے کیلئے بیسیوں الیکٹرک واٹر پمپس لگے تھے اور یوں قدیم وجدید ٹیکنالوجی کے امتزاج سے اہلیان کرلاں کیلئے پانی کی دستیابی کا سلسلہ جاری ہے دینہ اور کرلاں کے اس دورہ کے دوران ہمارے شعبہ کے متحرک کارکن محمد مبین نے ہمارے گائیڈ کا کردار ادا کیا۔ کرلاں سے واپسی پر میں نے محمد مبین سے پوچھا کہ جس بزرگ کے نام پر قصبہ دینہ کا نام رکھا گیا ہے ان کامزار کس جگہ پر ہے تو محمد مبین نے بتایا کہ دین محمد شہید المعروف بابادینہ کا مزار جی ٹی روڈ سے چند گز کے فاصلے پر ڈومیلی محلہ میں ہے ۔جب آپ راولپنڈی واپسی کیلئے روانہ ہوں گے تو ان کا مزار جی ٹی روڈ کے بائیں طرف آئے گا۔ ہم نے گاڑی جی ٹی روڈ سے منسلک سروس روڈ پر کھڑی کی اور قدرے تنگ راستے سے ہوتے ہوئے پیدل بابادینہ کے مزار پر جا پہنچے اور بابا دین محمد شہید کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔۔۔۔۔(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے