کالم

گلی گلی پھرتے صوتی بم

شہروں اور قصبوں کی گلیوں میں پھیری والوں کے ریڑھیوں، موٹرسائیکلوں یا سائیکلوں پر لگے لاؤڈ اسپیکروں کا شور انسانی صحت، ذہنی سکون اور معاشرتی نظم کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جسے لوگ عام سا سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں مگر دراصل یہ سماجی و طبی لحاظ سے ایک بڑھتا ہوا المیہ ہے۔پھیری والے کا لاؤڈ اسپیکر بظاہر روزگار کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ صوتی آلودگی کی ایک مستقل شکل اختیار کرچکا ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بلند آوازوں اور شور سے نہ صرف انسان کی سماعت متاثر ہوتی ہے بلکہ دل، دماغ، اعصاب اور نفسیات بھی خطرناک حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی امدادی صحت کے مطابق مسلسل شور سے ہارٹ اٹیک، بلند فشارِ خون، بے خوابی، ذہنی دباؤاور بچوں میں توجہ کی کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ ہزاروں لوگ شور کی زد میں آتے ہیں مگر ان میں سے اکثریت یہ نہیں جانتی کہ وہ ایک خاموش قاتل کے رحم و کرم پر ہے۔پھیری والوں کے لاؤڈ اسپیکر کا شور صرف کانوں پر نہیں بلکہ پورے اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ پھیری والے جب روزانہ صبح سے شام تک مختلف محلوں میں اپنی لاؤڈ اسپیکر سے آوازیں بلند کرتے ہیں تو وہاں موجود مریض، بزرگ اور بچے سب متاثر ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر پھیری والے یہ سمجھتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر ان کا کاروبار نہیں چل سکتا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قانونی طور پر پاکستان میں لاڈ اسپیکر کے استعمال کے لیے واضح ضابطے موجود ہیں۔ "پنجاب کنٹرول آف لاؤڈ اسپیکرز ایکٹ 2015” اور اسی نوعیت کے قوانین دیگر صوبوں میں بھی نافذ ہیں۔ ان قوانین کے تحت عوامی یا مذہبی مقاصد کے علاوہ کسی بھی نجی یا تجارتی مقصد کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے۔ یعنی پھیری والا، دکاندار یا کوئی بھی شخص لاڈ اسپیکر لگا کر اپنی اشیا فروخت نہیں کرسکتا۔ قانون کی دفعہ 3 کے مطابق بغیر اجازت کے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال قابلِ سزا جرم ہے، جس پر جرمانہ اور قید دونوں ہوسکتے ہیں مگر افسوس کہ اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس اکثر اسے معمولی معاملہ سمجھ کر نظرانداز کرتی ہے حالانکہ یہی معمولی معاملہ معاشرتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا تھا کہ غیر ضروری لاڈ اسپیکرز ضبط کیے جائیں مگر عملدرآمد کا سلسلہ چند دنوں بعد سرد پڑ گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ شور کو جرم نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک عام سی بات مان لیتے ہیں۔ یہی بے حسی ہمیں ان بیماریوں اور ذہنی دبا کے دائرے میں دھکیل رہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک نے برسوں پہلے پہچان کر قابو کرلیا ہے۔پھیری والوں کے لاڈ اسپیکر سے پھیلنے والی آلودگی صرف سمعی یا اعصابی نقصان تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ خطرناک بیماریوں کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق شور کی زیادتی جسم میں "کارٹیسول” ہارمون کی سطح بڑھا دیتی ہے جو جسم میں سوزش، معدے کے امراض، شوگر اور دل کے دورے جیسے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔ شور نیند کے دورانیے اور معیار کو بھی برباد کرتا ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔ مدافعتی نظام کی کمزوری مختلف وبائی امراض کے پھیلا کو آسان بناتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ پھیری والے کا لاڈ اسپیکر صرف کان نہیں چیرتا بلکہ انسانی صحت کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ایک اور اہم مسئلہ نفسیاتی دبا کا ہے۔شہروں میں رہنے والے لوگ پہلے ہی ٹریفک کے شور، گاڑیوں کے ہارن اور مشینوں کی آوازوں سے دوچار ہیں۔ جب اس میں پھیری والے کی بلند آواز شامل ہوجاتی ہے تو دماغ کے لیے یہ شور برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان چڑچڑا، غصے والا اور بے سکون ہوجاتا ہے۔ یہی نفسیاتی دبا گھر کے ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بچے پڑھائی میں دلچسپی کھو دیتے ہیں، بزرگ پریشان رہتے ہیں اور خواتین گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شور کی اذیت سے بھی نبرد آزما رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے حکومتوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ نہ ہی عوامی آگاہی کی کوئی مہم چلائی گئی ہے کہ شہریوں کو بتایا جائے کہ شور بھی ایک آلودگی ہے۔ جس طرح دھواں پھیپھڑوں کو تباہ کرتا ہے، ویسے ہی شور دماغ کو برباد کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی ادارے، پولیس اور صحت کے محکمے مشترکہ طور پر اس مسئلے پر کام کریں۔ پنجاب حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں مگر صوتی آلودگی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔وزیراعلی مریم نواز صوبہ پنجاب میں ایک جامع "نوائز کنٹرول پلان” متعارف کروائے، جس میں پھیری والوں کے لاڈ اسپیکر کے استعمال پر مکمل پابندی عائد ہو۔ محکمہ ماحولیات اور پولیس کو مشترکہ مہم کے تحت ایسے غیرقانونی اسپیکر ضبط کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہم چلائی جائے کہ لاڈ اسپیکر کا غلط استعمال ایک جرم ہے، جس کے نتائج صرف سماعت تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ آئی جی پنجاب پولیس تمام اضلاع کے ایس ایچ اوز کو سخت ہدایت جاری کریں کہ پھیری والوں، دکانداروں یا کسی بھی تجارتی سرگرمی میں لاڈ اسپیکر کے استعمال کو برداشت نہ کیا جائے۔ قانون کی پاسداری تبھی ممکن ہے جب اس پر عملدرآمد ہو۔ اگر پولیس اپنی ذمہ داری ایمانداری سے انجام دے تو شور کی اس وبا کو بڑی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔ پھیری والے اگر اپنی روزی کے لیے دوسروں کی صحت اور ذہنی سکون کو قربان کررہے ہیں تو یہ ظلم کے مترادف ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ شور بھی ایک بیماری ہے اور پھیری والے کا لاڈ اسپیکر اس بیماری کا سب سے نمایاں ذریعہ بن چکا ہے۔ وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز اور آئی جی پولیس اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لے کر عملی قدم اٹھائیں تو یہ ایک ایسا اقدام ہوگا جو آنے والی نسلوں کو صحت مند، پرسکون اور تہذیب یافتہ ماحول فراہم کرے گا کیونکہ شور محض آواز نہیں، ایک ایسی وبا ہے جو نظر نہیں آتی مگر زندگی کو اندر سے کھا جاتی ہے۔ اور یہ وبا تب ختم ہوگی جب ہم سب "شورِ وبا” کو پہچان کر خاموشی کی قدر سیکھ لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے