اللہ رب العزت نے انسان کو خوبصورت شکل میں تخلیق فرمایا،انسان میں جذبات بھی پیداکیے ،ان میں سے ایک جذبہ محبت ہے۔محبت ایک کیفیت ہے۔ محبت کی کوئی سرحد نہیں ہے ، محبت میں فاصلے نہیں ہوتے ،محبت کی کوئی ذات نہیں ہے، محبت کا کوئی رنگ نہیں ہے، محبت کی کوئی زبان نہیں ہے ، محبت کا کوئی مذہب نہیں ہے ،محبت زمان و مکان کی پابندی سے مبرا ہوتی ہے۔ محبت ذکر وفکر بھی کرواتی ہے ، محبت سجدے بھی کرواتی ہے ،محبت سر قلم بھی کرواتی ہے،محبت نچواتی بھی ہے۔ محبت رقاصہ اور گائیک کو ملکہ بھی بنادیتی ہے۔محبت بقا سے فنا تک کا سفر ہے ۔ گل بہار ایک اٹھارہ سالہ لڑکی تھی جو پیشے کے لحاظ سے رقاصہ اور گائیک تھی جس کے حسن اور آواز کے سحر نے حاکم وقت کو اپنا اسیر بنالیاتھا، اس حاکم نے ان کےلئے کوڑے کھائے اوران کی محبت کے حصول کےلئے ہر امتحان،ہرآزمائش کےلئے آمادہ رہے ،ہر سزا ،ہر شرط کو قبول کیا ۔ اس لڑکی کانام گل بہار تھا ،وہ مسلمان تھی اورامرتسرکی رہنے والی تھی ۔ پنجاب کے حاکم مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انہیں ©” روپڑ” میں ایک محفل میں پرفارم کرتے دیکھا تو وہ ان کا دیوانہ ہوگیا۔ ("روپڑ” موجودہ نام روپ نگر ،یہ بھارتی پنجاب کا ایک شہر اور ضلع ہے۔) مہاراجہ نے ان کاقرب حاصل کرنے کےلئے جستجو کی،وہ انھیں محبوبہ بنانا چاہتے تھے لیکن گل بہار نے صاف انکار کیا۔مہاراجہ ر نجیت سنگھ کی عمر تقریباً پچاس سال تھی ۔ گل بہار نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے کہا کہ میں آپ کی محبوبہ نہیں بلکہ آپ کی ملکہ بن سکتی ہوں، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ پیش کش قبول کی۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کوسکھ مذہب سے باہر شادی کرنے پرامرتسر میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ” اکال تخت” طلب کیا اور اکال تخت نے ان کو کوڑوں کی سزا دی ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر اس قدر فریفتہ تھے کہ وہ ان کےلئے ہر چیزبرداشت کرنے اور ان پر سب کچھ لٹانے کےلئے آمادہ تھے۔انھوں نے باقاعدہ گل بہار کا رشتہ مانگا، اکتوبر1831ءمیں ان کی شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ امرتسر کے رام باغ کے بنگلے میںشادی کی تقریب ہوئی،مہندی لگوائی، طلائی زیورات پہنے ، شاہی لباس زیب تن کیے اور ہاتھی پر سوار ہوئے۔ شادی کی تقریبات میں چراغاں کیا گیا، مجرے ہوئے اور محفل موسیقی منعقد ہوئی ۔ فنکاروں کو انعامات سے نوازا گیا۔ان کی شادی سکھ و مسلم رسم ورواج کی مرکب تھی ۔ امرتسر سے لاہور کےلئے شاہی جوڑا روانہ ہوا،لاہور کے قریب دریا راوی کا ایک نالہ تھا جس میں سے پیدل گذرنا پڑتا تھا لیکن گل بہار نے اس نالے کو پیدل پار کرنے سے انکار کیاتو وہاں پر پل تعمیر کیا گیا توپھر ملکہ گل بہار نے نالہ عبور کیا،بعدازاں یہ پل کنجری کے نام سے معروف ہوا۔گل بہار سے شادی کے تقریباًآٹھ سال بعد 1839ءمیں رنجیت سنگھ فوت ہوگیا ، اس نے خود کو ستی ہونے کےلئے پیش کیا لیکن ایک درباری نے اسے مشورہ دیا کہ یہ اسلام میں حرام ہے۔جب انگریز پنجاب پر قابض ہوگئے تو انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی آخری بیگم جنداں اورشہزادے دلیپ سنگھ کوملک بدر کیا کیونکہ دلیپ سنگھ کو رنجیت سنگھ کاجانشین مقرر کیا گیاتھا جبکہ گل بہاربیگم کی اپنی اولاد نہیں تھی ، انگریزوں نے 1849ءمیں ان کےلئے 12380روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا، گل بہار بیگم نے ایک مسلمان لڑکے سردار خان کو گود لیا تھا،گل بہار بیگم نے 1851ءمیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان کے قریب ایک مسجد اور باغ تعمیر کروایا، وہ 1863ءمیں لاہور میں وفات پاگئیں، ان کو اسی باغ میں دفن کیا،گل بہار بیگم کے پاس اتنی زیادہ جائیداد اور جاگیر تھی ،جس کےلئے انھوں نے باقاعدہ مال خانہ بنا یا تھا،ان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد لے پالک بیٹے سردار خان کو منتقل ہوگئی، سردار خان کی قبراسی باغ میں ہے۔گل بہار بیگم کو تاریخ میں ملکہ لاہور کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔جب خاکسار گل بہار بیگم باغ دیکھنے پہنچا توباغ مقفل تھا، گلی میں چند بچے کرکٹ کھیل رہے تھے تو ان سے دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ اس کی چابی فلاں گھر میں ہے،احمد نامی جوان نے باغ کا دروازہ کھولا۔گل بہار بیگم باغ کا دو منزلہ مرکزی دروازہ ہے،اوپرموجود کمرے کی بیرونی کھڑکیوں کو اینٹوں سے بند کردیا گیا ہے۔ اندر داخل ہوںتوبائیں طرف سیڑھیاں اوپر کمرے کی طرف جاتی ہیں،ٹوٹا پھوٹا فرش اور لکڑی کی شہتیروں کی چھت ،کمرے میںرنگ برنگ آرٹ کے نمونے ہیں،مرکزی دروازے کے دائیں طرف ملکہ لاہور گل بہار بیگم کا مقبرہ ہے جو مقفل تھا ۔ مقبرے کے اندر ایک چبوترے پر سنگ مرمر سے بنی گل بہار بیگم کی قبر ہے ، مقبرے کے سامنے ایک چھوٹا سا احاطہ ہے جس میں ملکہ لاہور گل بہار بیگم کے لے پالک بیٹے سردار خان کی قبر ہے ۔ باغ میں جابجا خود رو گھاس تھی، صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا، باغ اجڑا ہواتھا، نہ پھول اور نہ کلیاں، ہر طرف خاموشی اور افسردگی تھی اس کو دیکھ کر کافی دکھ اور افسوس ہوا، وہاں احمد نامی جوان نے وعدہ کیا کہ اس خود رو گھاس کو جلد صاف کریں گے،نہ جانے اس کو صاف بھی کریں گے یا نہیں، کیونکہ لوگ وعدے تو کرتے ہیں لیکن وعدے نبھاتے نہیں ۔ قارئین کرام! لوگ اپنی تاریخی اور قدیم مقامات اور اشیاءکی حفاظت کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا بہت کم ہورہا ہے۔ جہاں بھی جائیں، وہاں صفائی نہیںہوتی ہے، در ودیوار پر نام اور طرح طرح کے فقرے تحریر ہوتے ہیں،جن مقامات پر محکمہ اوقاف ، محکمہ سیاحت اور دیگر اداروں کی نگرانی ہوتی ہے، وہاں ان کے ملازمین کے نخرے زیادہ ہوتے ہیں، ان کا رویہ قابل تعریف نہیں ہوتا اور طریقہ کاربھی خوشگوار نہیں ہوتا ہے جبکہ مغرب اور دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے مذہب میں صفائی نصف ایمان ہے اور اسلام اخلاق پر زور دیتا ہے لیکن ہمارے شہروں اور محلہ جات وغیرہ میں صفائی نہیں ہوتی ہے اور لوگوں میں اخلاق کا فقدان بھی ہوتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صفائی اور اخلاق پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ان دو چیزوں کے باعث انسان کمال پر پہنچ سکتا ہے۔حکومت اور گل بہار بیگم باغ کے منتظمین سے استدعا ہے کہ گل بہار بیگم کے مقبرے اور باغ کی صفائی اور حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دیں،جہاں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے،ان کی مرمت کریں، اس باغ میں مزید قبریں نہ بنائیں ۔ باغ میں پھولوں کی کیاریاں بنائیں، مختلف انواع کے پھول لگائیں ، یہ اہم تاریخی مقام ہے ،اس لیے گل بہار بیگم باغ کو سیاحوں کےلئے کھول دیں۔