کالم

گوادر اور نیوی کا جشن

گوادرکو پاکستان میں شامل ہوئے 64 سال مکمل ہوگئے 8 دسمبر 1958 کو گوادر پاکستان کا حصہ بنا گوادر ڈے کے مناسبت سے پاک بحریہ کی جانب سے پی این ایس اکرم میں تقریب منائی گئی قومی پرچم لہرا کر سالگرہ کا کیک کاٹا گیاپاک بحریہ ہمارا مان اور اسکے جوان ہمارا فخر ہیں جو کئی کئی ماہ سمندر کے کھلے پانیوں میں زندگی گذارتے ہیں اگر انکے اختیار میں ہوتا تو آج گوادر دنیا کے حسین ترین شہروں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لوگ یہاں کے حسن کا نظارہ کرنے کو ترستے لیکن ہمارے سیاستدانوں کی لڑائیاں اور لوٹ مار کی پالیسی نے اس شہر کو وہ نظارے نہیں بخشے اور نہ ہی ہمیں اسکا احساس ہے اور نہ ہی پرواہ گوادر تو بہت بڑی جگہ ہے پوری کائینات میں ایک چھوٹی سی چیزکی بھی آپ قدر اور حفاظت نہیں کرینگے تو وہ بھی برباد ہو جاتی ہے اور گوادر میں تو زندگی ہے اور زندگی کے سبھی رشتے ناطے give and take (دیں اور لیں) کے زریں اصول پر مبنی اور استوار کھڑے ہیں یہاں کوئی بھی رشتہ یکطرفہ اور مفت میں نہیں ہے حتی کہ قدرت بھی اگر انسان کو دانائی عطا کر کے اسے اشرف المخلوق کا خطاب عطا کرتی ہے تو بدلے میں بجا طور پر اس سے اپنی فرمانبرداری کے علاوہ خدمت انسانیت کی توقع رکھتی ہے بالکل اسی طرح ہی اگر والدین اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے بچوں کو شہزادوں کی طرح پالتے پوستے ہیں تو بڑھاپے میں وہی والدین اپنے بچوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ انھیں بادشاہوں کی طرح رکھا جائے اسی طرح استادِ اپنے شاگردوں سے دوست اپنے دوستوں سے رہنما اپنے پیروکاروں سے مالک اپنے ملازم سے خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے ہر سائل متعلقہ افسر سے اور عوام اپنے لیڈر سے الغرض ہر رشتہ دوسرے رشتے سے کچھ نہ کچھ توقعات رکھتا ہے جنھیں پورا کر کے اس دنیا کو جنت کا عملی نمونہ بنایا جا سکتا ہے مگر ہم نے اپنے ہر رشتے کو نیست و نابود کررکھا ہے بلوچستان کا ذکر ہے تو اعظم سواتی یاد آگئے جنہیں اسلام آباد میں سبق سکھانے کے بعد بلوچستان میں گھسیٹا گیا وہ تو بھلا ہو ہائیکورٹ کا جنہوں نے انکے مقدمات ختم کروائے مگر پھر انہیں خصوصی جہاز سے سندھ پہنچا دیا گیا انکی دوران گرفتاری ان پر تشدد اور ننگی ویڈیو بنائی گئی وہ ایک سینٹر ہیں ایوان بالا کے ممبر ہیں اور انکے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو پھر ہمارے ادارے ایک عام شہری کا کیا حشر کرتے ہونگے اور جب وہ شہری ان کے ظلم اور تشدد سے بچ کر نکل آئے تو پھر وہ بارود کی کونسی شکل اختیار کرتا ہوگا یہ تو ہماری بلوچی بھائی خوب جانتے ہونگے خیر میں بات کر رہا تھا گوادر کی جو بلوچستان کا حصہ اورپاکستان کے جنوب مغربی ساحل پر واقع ہے یہ شہر عمان کے بالمقابل بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع ہے 2017 کی مردم شماری کے مطابق گوادر پاکستان کا 100 واں بڑا شہر ہے یہ 1783 سے 1958 تک عمان کا بیرون ملک قبضہ تھا اور تربت سے تقریباً 120 کلومیٹر (75 میل) جنوب مغرب میں ہے ایران کے صوبہ سیستان بندرگاہی شہر چابہار گوادر کے مغرب میں تقریباً 170 کلومیٹر (110 میل) کے فاصلے پر ہے۔ 2 اپریل 2021 کو گوادر کو جنوبی بلوچستان کے علاقے کا دارالحکومت قرار دیا گیاتھا گوادر 1797 میں مسقط اور عمان کی سلطنت کا حصہ بنا اور 1958 تک یہ قصبہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کا عمان سے پاکستان میں تبادلہ نہیں ہواگوادر ایک چھوٹی سی درمیانے درجے کی بستی تھی جس کی معیشت زیادہ تر کاریگر ماہی گیری پر مبنی تھی اس کے محل وقوع کی قدر کو سب سے پہلے 1954 میں تسلیم کیا گیا تھا جب اسے پاکستان کی درخواست پر یونائیٹڈ اسٹیٹس جیولوجیکل سروے نے گہرے پانی کی بندرگاہ کے لیے موزوں مقام کے طور پر شناخت کیا بدقسمتی سے اس علاقے کو گہرے پانی کی بڑی بندرگاہ بننے کی صلاحیت کو 2001 تک کسی پاکستانی حکومت نے خاطر میں نہیں لایا 2007 میں 248 ملین ڈالر کی لاگت سے کام شروع ہوا تو ابتدائی طور پر کئی وجوہات کی بنا پر کام رک گیا اپریل 2015 میں پاکستان اور چین نے 46 بلین ڈالر کے پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو تیار کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیاجو ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بنتا ہے جس کا مقصد شمالی پاکستان اور مغربی چین کو گہرے پانی کی بندرگاہ سے جوڑنا ہے گوادر شہر ایک مائع قدرتی گیس کی سہولت کا مقام بھی ہو گا جو کہ 2.5 بلین ڈالر سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے حصے کے طور پر تعمیرہونا تھالیکن نہ ہوسکا اس شہر کو 8 دسمبر 1958 کو اس وقت کے وزیر اعظم نے مسقط اومان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا مسقط سے یہ شہر بھارت خریدنا چاہتا تھا جس پر یہاں کے شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور پھر اومان مسقط نے انڈین آفر مسترد کرکے گوادر کا سودا پاکستان سے کرلیا اور 8 دسمبر 1958 کو کوہ باتیل پر پاک بحریہ نے پاکستان کا قومی پرچم لہرا کر گوادر کو باقاعدہ پاکستان میں شامل کیا اس مقام پر گذشتہ روز ہونے والی سالگرہ پاکستان نیوی نے پرچم کشائی اور ملے نغموں سے منائی میں نے شروع میں لکھا تھا کہ ہمارے نیوی کے جوان ہمار فخر ہیں کیونکہ جس وقت دنیا کے ساڑھے چھ لاکھ لوگ زمین سے ہزاروں فُٹ بلند جہاز میں بیٹھے اڑ رہے ہوتے ہیں وہاں پر ہزاروں لوگ سمندر کی سطح سے نیچے آبدوز پر موجود ہوتے ہیں جہاں ان کی بڑی طاقت ان کی خاموشی ہوتی ہے یہ لوگ زندگی کا بڑا حصہ پانی کے نیچے گزار دیتے ہیں جہاں طاقتور ہتھیارموجود ہوتے ہیں اور میں سب سے نازک چیز وہاں کا عملہ ہوتا ہے دھات کے اس ڈبے آبدوز کے عملے کے لئے ہر کوئی کوالیفائی نہیں کر سکتا بحریہ میں اس کے لئے سخت شرائط ہوتی ہیں جن میں سے ایک نفسیات کا امتحان بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک لمبی مدت تک پانی کے اندر اس ڈبے میں زندگی گزارنا آسان نہیں خاص کر ایٹمی آبدوز میں جہاں کسی کی ایک غلطی لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال سکتی ہے وہاں پرمضبوط اعصاب ضروری ہیں کیونکہ ایک وقت میں اس کو ایک ماہ تک کے لئے پلان کیا جاتا ہے ایک وقت میں زیرِسمندر اور بغیر سطح پر آئے سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ (جو پبلک ہے) وہ گیارہ ماہ کا ہے جو ایک امریکی آبدوز کا ہے (امریکہ کی ایک وقت میں ساٹھ سے ستر آبدوزیں عالمی پانیوں میں ہوتی ہیں) یہی وجہ ہے کہ ایک لمبا عرصہ بغیر سورج کے ایک چھوٹی سی جگہ میں بند رہنا اعصاب پر اثر ڈالتا ہے ایک نیوکلئیر آبدوز کتنا عرصہ پانی کے نیچے رہ سکتی ہے؟ اس کا انحصار صرف اس پر ہے کہ اس میں خوراک کتنی ہے اس کے ری ایکٹرز میں ایک ہی بار ایندھن ڈالا جاتا ہے جو اس آبدوز کی پوری زندگی کے لئے کافی ہوتا ہے ہوا اور پانی کو ری جنریٹ کیا جاتا ہے اس لئے کھانا (یعنی اس پر بسنے والے عملے کے لئے ایندھن) وہ واحد چیز ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ کتنا زیادہ وقت ایک غوطے میں لگا سکتی ہے ان افراد کی زندگی کیسے گذرتی ہے اس پر کبھی موقعہ ملا تو ضرور لکھوں گا کیونکہ یہ خاموش لوگ گہرے پانیوں میں پاکستان کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں اللہ تعالی انکی حفاظت فرمائے اور ایسے حکمرانوں آئیں جو پاکستان کو حقیقی معنوں ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں تک لے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے