گوادر پورٹ کےخلاف محاذ آرائی اور سندھ میں طلبہ یونین پر قرار داد کثرت رائے سے مسترد کر دی گئی ان دونوں معاملات پر بات کرنے سے پہلے چند باتیں ان کاروباری لوگوں کی جنکا مستقبل درمیانے درجے کے کاموں اور انٹرنیٹ سے وابستہ ہے وہ اس وقت شدید کرب کاشکارہیںاور اگرانہیں حکومت نے بلاسود قرضوں کی آکسیجن فراہم نہ کی تو پھر حالات کسی طرف بھی جاسکتے ہیں اس وقت ہماری بڑی اور چھوٹی انڈسٹری تقریبا ختم ہو چکی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کی اقتصادی بحالی کا انحصار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو بااختیار بنانے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور نجی شعبے کی مکمل صلاحیتوں کو کھولنے کےلئے مربوط پالیسیاں اپنانے پر ہے اس لیے مینوفیکچرنگ اور ایس ایم ای سیکٹرز پر توجہ دی جانی چاہیے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے اگرچہ اس سلسلہ میں دوست ممالک سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے لیکن اس میں اکثر طویل فزیبلٹی اسٹڈیز کی وجہ سے تاخیر ہوجاتی ہے اس وقت حکومت کو ان سرمایہ کاری پر توجہ دینی چاہیے جو مختصر مدت میں حاصل کی جا سکتی ہیں چاہے وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی اور انہیں ایس ایم ایزجیسے پیداواری شعبوں میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج کا دور آئی ٹی کا دور ہے اور اس حوالہ سے ہماری حکومتوں کی عدم دلچسپی سے ہمارا یہ شعبہ بھی ختم ہو رہا ہے اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی سست ترین سپیڈ نے پوری کردی ہے۔پاکستان میں انٹرنیٹ کی جاری رکاوٹیں کال سنٹر کی صنعت کوبھی شدید متاثر کر رہی ہیںجس سے انہیں مالی نقصان ہو رہا ہے ملک غیر مستحکم انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا شکار ہے انٹرنیٹ سے منسلک کاروبارکرنے والے سروس کے معیار کو برقرار رکھنے اور صارفین کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اس وقت کال سینٹر والے بھی اسی سست انٹر نیٹ کا شکار ہیں جہاں سینکڑوں بچے اور بچیاں روزگار کمار ہے ہیں جہاں انٹرنیٹ میں بار بار رکاوٹوں کے نتیجے میں کال کا معیار خراب ہوتا ہے اور کنکشن ختم ہو جاتے ہیںجس سے کال سینٹرز کےلئے سروس لیول ایگریمنٹس کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ صورتحال محدود بینڈوتھ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے جو متعدد کالوں کو منظم کرنے یا جدید سافٹ ویئر ٹولز کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت کو روکتی ہے ویڈیو کانفرنسنگ اور وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول کالز خاص طور پر کمزور ہیں جو مواصلات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں جبکہ مخصوص انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں پر انحصار ایک اجارہ دارانہ ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور سروس کے معیار میں کمی ہوتی ہے، یہ محدود مقابلہ ان کاروباروں کیلئے توسیع پذیری کو محدود کرتا ہے جو آپریشنز کو بڑھانا چاہتے ہیں موجودہ انٹرنیٹ انفراسٹرکچر میں بہت سی خامیاں اور رکاوٹیں ہیںجو جدید ٹیکنالوجی جیسے کلاوڈ کمپیوٹنگ یا مصنوعی ذہانت کے انضمام کو اپنانے میںچیلنج ہیں۔ اب آتے ہیں گوادر پورٹ کی طرف جہاں اب ترقیاتی کام اپنے عروج پر ہیں ائر پورٹ مکمل ہو چکا ہے گزشتہ روز باقاعدہ کام شروع کردیا چین کی جانب سے مہیا کیے گئے 230ملین ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل ہوا گوادر ایئرپورٹ اب پاکستان کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوگا اگر یہ ایئرپورٹ کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو بلوچستان اور پاکستان کی معیشت بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جو لوگ اس وقت پاکستان سے دشمنی پر اترے ہوئے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں آج انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ قتل و غارت کرکے نہ صرف بلوچستان کے عوام کےخلاف جارہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ساتھ صریحا ًدشمنی ہے ۔چین جیسا دوست ملک جس نے اپنے وسائل سے یہ ایئرپورٹ تحفے میں دیا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے گوادر اس وقت ہمارے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ کراچی کی بندرگاہیں پہلے ہی تنگ ہیں وہاں آمد و رفت کا بے تحاشہ بوجھ ہے ایسے میں گوادر پورٹ کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے اب بات کرلیتے ہیں سندھ میں طلبہ یونین پر پابندیوں کی اس سلسلہ میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونین کی بحالی کیلئے جماعت اسلامی کی قرارداد کثرت رائے سے مسترد کردی گئی ہے۔
جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے طلبا یونین کی بحالی سے متعلق قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ طلبا کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئی آئین پاکستان کے مطابق کے فوری طلبا یونینز کے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ 11فروری 2022کو سندھ اسمبلی نے سندھ اسٹوڈنٹس یونین ایکٹ منظور کیا تھا جس کے مطابق تمام تعلیمی اداروں کو دو ماہ میں قوائد و ضوابط مرتب کرکے ہر سال طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد کرنا تھا ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سندھ بھر میں طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد نہ ہونا اور طلبہ کو آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق یونین سازی کے بنیادی حق سے محروم رکھنا افسوسناک ہے۔ 24اکتوبر 2024کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں ملک بھر کی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کا بھی حکم جاری کیا ہے، طلبہ کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے آئین پاکستان کے مطابق فوری طلبہ یونین کے انتخابات کرائے جائیں پیپلز پارٹی کے ضیا لنجار نے کہا کہ طلبا یونیز پر کام ہو رہا ہے پیپلز پارٹی کا بھی اپنا موقف ہے طلبا یونیز ہمارے منشور میں بھی موجود ہے اور سندھ حکومت نے طلبا یونینز سے پابندیاں ہٹا دی ہیں، اس لیے میرے حساب سے اس قرارداد کی ضرورت نہیں ہے جبکہ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ طلبہ یونین کے تین سال سے انتخابات نہیں ہو رہے طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تشدد کے واقعات ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ایسے طلبہ لیڈر آئیں جو سیاسی اقدار سے واقف ہوں پی پی جمہوریت کی چیمپئن بنتی ہے تین سال میں وہ طلبہ یونین کے انتخابات میں ناکام ہوئی جو قرارداد لائی جاتی ہے اس کو بلڈوز کیا جاتا ہے ایم کیو ایم پاکستان کے رکن انجنیئر محمد عثمان کا بھی یہی کہنا تھا کہ طلبا یونین کے انتخابات فوری کروائے جائیں طلبا کو حق ہے کہ وہ نمائندے منتخب کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی تنظیم سے ہو ناظم اسلامی جمعیت طلبہ کراچی آبش صدیقی کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی سے قراداد کا مسترد ہونا قابل مذمت ہے۔ پیپلز پارٹی جواب دے کہ اپنے ہی چیئرمین کے فیصلے کے خلاف کیسے جارہے ہیں۔
کالم
گوادر پورٹ اور سندھ طلبہ یونین
- by web desk
- جنوری 24, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 9 Views
- 3 گھنٹے ago