ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نازل ہوئی ہے جان بوجھ کر حالات کو بگاڑا جا رہا ہے۔ لگتا ہے جیسے کوئی دشمن کسی ازلی دشمن سے بدلہ لے رہا ہو۔ آتے ہی ساری جان لیوا ڈیوٹیاں مفتاح اسماعیل کی لگا دی گئی ہیں، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی بات ہو یا ڈالر کو رکھنا ہو بے لگام یہ تو جناب مفتاح اسماعیل کے ہیں سارے د ل پسند کام۔ اور وہ بھی نیشنل ٹی وی پر آکر مزے لے لے کر، زخم لگاتے بھی جاتے ہیں اور اوپر سے نمک بھی ڈالتے رہتے ہیں۔ پہلا بندہ دیکھا ہے جو ظلم بھی کرتا اور قہقہے بھی لگاتا تھا۔ عوام کی چیخیں آسمان پر اور اوپر سے تڑکا لگاتے کہ ہاں مہنگائی ہے کیونکہ انہیں ان کی بہنوں نے بتایا ہے کہ بھیا جی، مہنگائی ہو چکی ہے۔ اسکا مطلب ہے عوام کی دوہائیوں سے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آپ کہتے ہیں ملک بچالیا۔ہم کہتے ہیں بے شک درست فرمایا آپ نے، لیکن ملک بچاتے بچاتے آپ نے عوام کو تو زندہ درگور کر دیا ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام ضرور بچا لیا۔ فرق صاف ظاہر ہے آپکے آقا خوش،لیکن جو عوام جھولیاں اٹھا اٹھا کر اس حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں اس پر بھی کبھی غور فرمایا کسی نے۔ بجلی کے بلوں نے تو لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے، لاکھوں بجلی کے میٹر کٹ گئے یا کٹنے جا رہے ہیں محض اس وجہ سے کہ لوگ بل ادا نہ کر پائے۔ شرطیہ کہتا ہوں کہ بجلی کے موجودہ میٹر ضرورت سے زیادہ تیز بلکہ بہت تیز ہیں،سوشل میڈیا پر ایک کلپ دیکھا، بجلی کے کچھ میٹر جو اتار کر سٹور میں پڑے تھے، انکی چرخیاں پڑے پڑے چل رہی تھیں۔ تین چار سو یونٹ تو ایک عام لوئر مڈل کلاس فیملی کے آ جاتے ہیں جن کا ایوریج بل آجکل چوبیس پچیس ہزار سے کم نہیں آتا اور جب ٹوٹل بل اور صرف شدہ یونٹس کو ضرب دی جائے تو فی یونٹ پچاس روپے کے قریب پڑتا ہے۔ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے لیکن آپ نے تو ہر حد ہی کراس کر ڈالی۔ آپ نے تو مارا اور ساتھ گھسیٹا بھی بڑی بے دردی سے ہے۔ شکر ہے یہ ذبح خانہ (مفتاح سلاٹر ہاو¿س)تو بند ہوا جہاں حرام حلال سب کچھ کٹ رہا تھا۔ دیکھتے ہیں اب منشی صاحب آ گئے ہیں۔ جنہوں نے آتے ہی مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں پر تھوڑی بہت تنقید کرکے عوام کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی کوشش کی، نبضیں ٹٹولیں،زندہ دیکھ کر تھوڑی سی دوا بھی پلائی، آتے ہی پرانی بازیگری سے ڈالر پر بھی چھومنتر پھیرا، جب تھوڑا نیچے آ یا تو صدا لگائی دیکھا میرے آنے کی فضیلت، پیٹرولیم مصنوعات پر بھی بھوکے عوام پر کچھ نچھاور کرنیکی کوشش کی لیکن اس خیال سے کہ بے چارے عوام کہیں سچ میں مر ہی نہ جائیں بلکہ اتنی سی خوراک دی ہے کہ پھر سے ان کی کچھ جان میں جان ائے، جسموں میں تازہ خون پھر سے بنے اور یہ پھر سے نچوڑیں۔ یہ سب ڈرامے ہیں، مفتاح اسماعیل کیان لیگ کے نہیں تھے، ڈار صاحب ایک منجھے ہوئے سیاسی گرو ہیں اپنی پانچ سال کی مفروری کا کوئی ازالہ تو کرنا تھا، دس بارہ روپے پیٹرولیم پر رعایت دے کر لیکن جو بڑے پیمانے پر ناجائز ڈاکہ پچھلے کئی ماہ سے پچاس ساٹھ کا مارا جا رہا ہے اس کا جواب کون دیگا۔ وہ کس کے کھیسے میں گیا؟ یقین فرمائیں یہ دونوں اندر سے ایک ہیں، جیسے کہا جاتا ہے” نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ ون اینڈ دی سیم تھنگ“ مفتاح کے ہاتھ میں اگر خون نکالنے والی 50 cc کی سرنج تھی تو ان صاحب کو 100 cc کے ہتھیار سے لیس کر کے میدان میں اتارا گیا ہے۔ملک میں عملی طور پر کنٹرول آئی ایم ایف کا ہے، ہر چیز کے بھاو¿ تاو¿ اسی منڈی سے طے ہوتے ہیں، دنیا میں تیل کی قیمتوں کو دیکھیں اور یہاں کے ریٹ دیکھیں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر روزانہ کروڑوں اربوں کی گیم کر رہی ہے، یہی تو وجہ ہے کہ رہتے ہم پاکستان میں ہیں اور اشیا خوردونوش ہم یورپ والی قیمتوں پر خریدتے ہیں، کبھی کدو شریف بھی سنا تھا دو سو ڈھائی سو روپے کلو بکیں گے، پیاز،ٹماٹر تو خیر اب اجنبی اجنبی سے لگتے ہیں، روٹھے روٹھے، ویسے ہم نے انکی بے قدری بھی تو عشروں کی ہے۔ گو سلو پالیسی سے میری پریشانی آجکل بجلی کا بار بار جانا، انٹر نیٹ وغیرہ انتہائی سست روی سے چلنا، جب بھی کسی بڑے مخالف لیڈر کی تقریر جلسہ یا ٹاک شو ہو، نیٹ کو جان بوجھ کر سلو رکھنا، پیمرا کا بے دریغ استعمال اور زرائع ابلاغ پر بے جا پابندیوں سے آئین کی دھجیاں اڑانا آجکل عام ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ حکومت ہر وہ اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی جس سے مخالف کی آواز کو دبایا جائے۔ یہ سب کچھ محض اپنے آپکوبےوقوف بنانے کے مترادف ہے کیونکہ سوشل۔میڈیا ایک ایسا اطلاعات و نشریات کا سستا، طاقتور ،تیز تر اور موثر ترین ہتھیار ہے جسکے آگے ان کے ہر طرح کے مصنوعی بند محض ریت کی دیواریں ہی ثابت ہوتے ہیں۔
کالم
گو سلو ۔۔ لیکن مہنگائی عروج پر؟
- by Daily Pakistan
- اکتوبر 7, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 833 Views
- 2 سال ago