میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت پوری قوم ذہنی انتشار میں مبتلا ہےشاید اس کی وجہ وحدت عمل نہیں وحدت فکر و عمل عطا کرنامیرے خیال میں صاحب حال کا کام ہے۔ صاحب حال بنانے والی نگاہ کسی بھی وقت مہربانی فرما سکتی ہےوہ نگاہ کرم ہی مشکلات کا حل ہےمعلوم نہیں کب کوئی صاحب حال منظر پر نمودار ہو جائے قوم اور ملک کے دل و نگاہ میں اپنا رنگ جماتا ہوا وحدت عمل پیدا کر جائے اور ہمیں اپنے مقام کا پتہ چل جائے وہ ذات جس نے اس ملک کو دنیا کے نقشے پر واضح کیا ہے اس ملک کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ بھی بنا سکتی ہے پھر عمل اور لگن یکجا ہو جاتے ہیں ابھی تک تو ہوس لالچ فریب دھوکہ دولت کو سمیٹنے والوں کے چنگل سے ملک اور قوم آزاد نہیں۔دشمن تاک میں ہیں کس طرح اس ملک کو کمزور سے کمزور کیا جائےوہ اپنے شیطانی حربوں سے وار کر رہے ہیں اوریہاں کچھ روحانی طاقت رکھنے والے ملک کو دشمنوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں ہر شخص اپنے آپ کو سندھی پنجابی بلوچی پختون کے لبادوں میں چھپائے ہوئے ہےپاکستانی کہلانے میں اتنا جوش و خروش نہیں جتنا جزبہ اس کے علاوہ کی سوچ میں ہے بقول حضرت واصف جس طرح طریقت کے سلاسل ہیں چشتی قادری نقشبندی سہروردی وغیرہ اور ہر سلسلے کا کوئی بانی بھی ہےاس طرح سوچا جائے تو قائد اعظم نے اک نئی طریقت کا آغاز کیا وہ طریقت ہے پاکستان، اس طریقت میں تمام سلاسل اور تمام فرقے شامل ہیں ہر پاکستانی پاکستان سے محبت کرتا ہے ہمارے لیئے تو ملک پہلی اور آخری محبت ہے اسی سے پہچان اور نام ہے ان شااللہ کبھی نہ کبھی تو اس کے اصل مقام کا دنیا کو پتہ چلے گا ۔ اقبال نے مسلمانوں کو وحدت افکار سے نوازا اور قائد اعظم نے وحدت کردار عطا کی۔ وہ استقا مت ، صداقت کا پیکر تھے وہ اپنے آپ کو قائد اعظم کہلوانے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ مسلمانوں کی دل جان سے خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار تھے ان کے خلوص کو فطرت نے قبول کیا اور انہیں صاحب حال بنا دیا فتوی ان کے خلاف تھا لیکن فطرت اور حقیقت ان کے ساتھ تھی اور پھر وہ قائد اعظم بنا دیے گئے پہچاننے والوں نے پہچان لیا کہ یہ کسی نگاہ کا کرشمہ ہے کسی ذات کا فیض ہے نصیب کا فیصلہ ہے اہل باطن قائد اعظم کے ساتھ ہو گئے اور منزل مل گئی ملک معرض وجود میں آگیا قائد اعظم دلوں میں اتر گئے اور مخالفین دلوں سے اتر گئے یہ نگاہ کا کرم ہوتا ہےعطا کے کرشمے ہیں سمجھنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی یہ بھی کرم کے فیصلے ہیں صاحب حال کے پاس یقین کی دولت ہوتی ہے نسبت ہوتی ہے نصیب ہوتا ہے اور پختہ ایمان ہوتا ہےایک تصویریں بنانے والے فنکار کو باطن کی روشنی دے دی جائے تو خطاطی شروع ہو جاتی ہے وہ قرآن کی آیات میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ وہ صاحب حال بن جاتا ہے بنانے والے نے اپنے کرم سے اس کے حال کو بدل کر رکھ دیا اعتراضات پیچھے رہ گئے صداقت اور حقیقت بازی لے گئے صاحب حال کا دل اس کی آنکھ میں ہوتا ہے اور آنکھ دل میں ہوتی ہے اس کے قرب میں انسان اپنے آپ سے دور ہو جاتا ہے وہ کوئی انوکھی مخلوق نہیں ہوتا انسانوں میں رہتا ہے لیکن اس کا انداز انسانوں سے جدا ہوتا ہے وہ ذات اور صفات کے تعلق سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اسکی نگاہ وجود اور موجود کے باطن پر ہوتی ہے اس وقت صاحب حال کی ضرورت ہے دعائیں ضرور اپنا رنگ لائیں گی ملک جس کیفیت میں ہے اس کی بہتری صاحب حال کے عمل سے ہی ہوگی صاحب دولت لوگ تو ہمیشہ اقتدارکی طاقت کے حصول میں ہی لگے رہتے ہیں اور اسکی بلند چوٹیوں پر پہنچنے کی تگ ودود میں لگے رہتے ہیں اسی لگن میں زندگی کٹ جاتی ہے او ر پھر ایک اور مٹی کے ڈھیر میں اضافہ ہو جاتا ہے دولت کے انبا ر لگانے والے کبھی تو یہ سوچتے ہوں گے اتنی دولت کس کام آئے گی سوائے ان کے اپنی فیملی کے جھگڑے فساد اور دشمنی ڈالنے کے جو کھا لیا وہ ان کا جو پہن لیا وہ وقتی طور پر اپنا باقی حقیقتا کچھ بھی نہیں دوسروں کے لیے دولت جمع کرنے والے انسان کا ضمیر کبھی تو جاگتا ہوگااپنے عمل پر شرمسا ر ہوتا ہوگا جس ملک اور ملت کو جی بھر کے لوٹا ان سے درپردہ معافی کا خواستگار ہوتا ہوگاتنہائی اور خلوت میں اللہ سے معافی کا طلبگار ہوگادل پر لگی مہر کبھی ٹوٹتی ہوگی موجودہ ملکی صورت حال میں صاحب حال ضرور کرم کریں گے کوئی ایسا شخص ضرور نمایاں ہوگاجو اپنی جیسی ٹیم کے ساتھ ملکر شب و روز محنت کریگاملک کی ناو جو اس وقت بھنور میں ہے اسے کنارے تک پہنچائے گا بے لوث ہو کر کام کریگا نہ ستائش کی پرواہ نہ صلے کی تمنا اسکا مطمع نظر ہوگا قوم مختلف انداز کی قربانی دے دے کر تھک چکی ہے ادھ موئی ہو چکی ہے کسی اچھے مستقبل کے خواب میں ہے تعبیر کے انتظار میں ہے اسوقت چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے متحد ہوکر صرف اور صرف پاکستانی بننے کی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے حقیقت پر مبنی سوچ رکھنے والے کبھی ملک کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے کاش تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر لائحہ عمل تلاش کریں اپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف ملک کی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں سوچیںہم اندھیروںمیں بھٹکے ہوئے ہیں اور روشنی کی تمنا ہے سات دہائیاں گزار کر بھی تاحال صراط مستقیم کی تلاش ہے اتنے بڑے ملک میں اتنے لوگ بھی میسر نہیں جو بے لوث سوچ کے ساتھ ملک کو معاشی استحکا م دے سکیں سیاسی استحکام ہوگا تو پھر معاشی استحکام کی طرف کارواں چل سکتا ہے ورنہ اندیشے پاوں کی زنجیر بنے رہتے ہیں اس وقت صادق جزبوں کی ضرورت ہے بے لوث ہو کر سوچنے کا وقت ہے عمل کر نے کا وقت ہے ذاتی مفادات کو بھول کر قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے اپنے ماحول کو اب دینے کی ضرورت ہے حاصل کرنے کی نہیں ۔ غریب عوام تو اک طویل عرصے سے اپنا سب کچھ قربان کرنے پہ لگی ہوئی ہے اب صاحب ثروت لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے ملک کے قرض اتارنے کے لیے انہیں قربانی دینا پڑیگی قوم کے رہنماوں کو جنہوں نے اس ملک سے سب کچھ حاصل کیا ہے اب اپنی سوچ اور عمل کو ٹھیک کرنا ہوگا قائد اعظم کے کردار اور علامہ اقبال کے افکار کو اس وقت شدت سے اپنانے کی ضرورت ہے یہ سوچنا چایئے کہ جب مقررہ وقت پر سب کچھ چھوڑ کر اجانا ہی ہے تو پھر دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر اکٹھا کیا کرنااللہ کے ہاں جواب تو خود دینا پڑیگاجن کے لیے جمع کیا جاتا ہے وہ اپنا جوا ب دیں گے کسی نے کسی کے کام نہیں آنا سب کچھ سامنے آ جا ئے گا یہ ٹھاٹھ باٹھ چند دنوں کے لیے چکاچوند کرنے والے مناظر ہیں سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ سوچنے اور اپنا محاسبہ کرنے کا ابھی وقت ہے دوبارہ اس دنیا میں نہیں آنا اعمال اور افکار کوراہ راست پر لانے کا یہی وقت ہے ۔ پھر یہ وقت نہیں ملے گا گزر گیا وقت ماضی بن کر حال سے بے حال ہونے میں مستقل خطرے میں ہے یاد رکھیں خوش نصیبی وجود کا ظاہر نہیں وجود کا باطن ہے ۔