افغانستان کی طالبان حکومت نے اعلان کیاتھاکہ چین نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔، چین کو طالبان کے سفیر کو تسلیم کرنے والا والاپہلا ملک بنا دے گا۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کہنا ہےکہ افغانستان کو بین الاقوامیااا برادری سے خارج نہیں کرنا چاہیے۔ ایک بیان میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے طالبان حکومت کو دنیا میں تسلیم کرانےکے لیے سیاسی اصلاحات، سکیورٹی اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات میں بہتری کو ضروری قرار دیا۔چین نے افغانستان کی طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تمام ممالک خاص کر پڑوسیوں سے تعلقات ٹھیک اور دہشت گرد گروپوں کےخلاف کارروائی کریں۔گزشتہ ستمبر میں چین کابل میں اپنا سفیر مقرر کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔ دوسرے ملکوں نے یا تو اپنے سابق سفیروں کو دوبارہ متعین کیا ہے یا اپنے سفارت خانوں کے سر براہوں کو قائم مقام سفیر کی حیثیت سے مقرر کیا ہے، جومیزبان حکومت میں اسناد پیش کرنے کی متقاضی نہیں ہوتی۔چین کی سرکاری اور نجی کمپنیوں نے افغانستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور کچھ نے حالیہ مہینوں میں طالبان کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی بینکنگ سیکٹر کی پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے افغانستان میں بڑے پراجیکٹس شروع کرنے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان نے افغانستان کی روس اور امریکہ کی جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کین آباد کاری سے ملکی معیشت اور امن و امان کو نقصان پہنچا، معیشت تباہ ہوئی اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ ملا۔وہ وقت یاد کریں جب افغانستان میں اشرف غنی کے فرار کے بعد طالبان طور پرفاتحانہ کابل میں داخل ہوئے تھے ۔ اورپنٹا گان میں جنرل کینیتھ نے افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کی تکمیل کے ساتھ بیس سالہ امریکی جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔واشنگٹن میں ہونے والے اس اعلان کے بعد کابل میں طالبان سڑکو ں پر نکل آئے اورہوائی فائرنگ کرکے” مکمل آزادی“ کا جشن منایا تھا۔ جب کہ ہمارے ہاں بھی افغانستان میںبظاہر امریکی شکست کواس کے نظام کے زوال کی علامت قرار دیا جا رہا تھااور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ امریکی نظام شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ افغانستان میں چالیس سال قبل استعماری طاقتوں نے جس کھیل کی شروعات کی تھیں اس کا اختتام ہو چکا ہے۔ امریکہ نے دورانِ جنگ خطے میں آلہ کار طبقہ پیدا کرنے کیلئے کھربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچاسی ارب ڈالر کا اسلحہ ناکارہ شکل میں طالبان کے ہاتھ لگا تھا۔ امریکہ نے اس خطے سے لوٹتے وقت ساتھ چلنے والی قوتوں کو زیرنگیں رکھنے کیلئے ایف اے ٹی ایف کا استعمال شروع کردیا ہے جو آج بھی ہمارے لئیے گلے کا روگ ہے۔ دراصل استعمار کے پاس تعمیر کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اپنے غلبے کے دور امریکہ نے دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں افغانستان، لیبیا ،عراق اور شام کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعد تاثر تھا کہ اب جب کہ امریکہ کو شکست ہو چکی ہے خطے کے ممالک اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت روس ، چین اورایران ایک پیج پر ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ روس شام میں عالمی استعماری طاقتوں کے دانت کھٹے کرچکا ہے۔ چین معاشی میدان میں معجزاتی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور چین نے بار بار استعماری طاقتوں کو متنبہ کیا ہے کہ: ”وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں۔ اور یہ کہ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیے ”چین کو دھمکانے کا وقت گیا۔ کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر دیوارِ چین پر مارکر پاش پاش کردیں گے“۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعدروس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ کی افغان جنگ کا نتیجہ صفر نکلا ، 20 سالہ مہم جوئی سانحات پر ختم ہوئی اور افغانیوں کی روایات کو توڑنے کی ہر امریکی کوشش ناکام ہوئی۔اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے افغان مہاجرین کو روس میں آباد کرنے کی مغربی ممالک خواہش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سویت یونین کی دس سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی بند کر دی ہے۔ جبکہ چین کا کہنا تھا کہ 20 سال سے جاری جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کے انخلا نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیاہے اور ایسا ہی ہوا چین اور افغانستان کے درمیان ہونے والے معاہد ے اس کا ثبوت ہے ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ا± مید ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو جامع، قابل رسائی اور وسیع نمائندگی کی حامل ہوگی اور افغانستان ہر قسم کی دہشت گرد قوتوں کے خلاف سختی سے کریک ڈاو¿ن کریگا۔دریں اثناءچین نے طالبان کے افغانستان میں قبضے کے بعد ان سے دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کو گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل میں چین کا سفارت خانہ بند نہیں کیا گیا جو چین کی دور اندیشی کا ثبوت تھا ۔تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ چین کیلئے کابل میں ایک مستحکم اور معاون حکومت بیرون ملک انفراسٹرکچر کی توسیع کی راہ ہموار کرے گی جبکہ طالبان چین کو سرمایہ کاری اور معاشی مدد کا ایک اہم ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ جو سچ ثاابت ہوئے۔