کالم

ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

پاکستان میں پون صدی کی تاریخ اور چلن نے شکست خوردہ بے شرموں کی ایک فصل تیار کی ہے۔یہ لوگ بے بنیاد خبط عظمت کا شکار، زبان دراز ، اپنے جہل پر نازاں اور اپنے مفروضہ زہد پر متکبر رہنے والے لوگ ہیں ۔یہ اپنی نابینا بصارت کے کاذب وکیل اور وہی مفروضہ مناظر دیکھنے اور دکھانے پر مصر ہوتے ہیں ،جو امر واقعہ کے طور پر تو کوئی وجود نہیں رکھتے، لیکن وہ انہی ظہور پذیر نہ ہو سکنے والے واقعات کو ہی سچ مانتے اور اپنے اعتماد کی بنیاد جانتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی مخلوق کا تناسب رفتہ رفتہ بڑھتا جا رہا ہے ۔یہ فاسق تاریخ کی جلد میں پلنے والے طفیلی کیڑوں کی مانند ہیں ،جو فاسق تاریخ کے مرنے کے ساتھ ہی معدوم ہو جائیں گے۔تاریخ کے ساتھ کھیلنا اور حال کو جہالت کی چٹکیاں کاٹنا مستقبل کو مخدوش کر دیتا ہے۔ اس وقت معاشرتی حبس کو سچائی کی تازہ ہوا کی اشد ضرورت ہے۔ستم ظریف کا گمان ہے کہ پاکستانی ریاست ”اغواہ برائے تاوان“کی حالت میں قید و بند کی اذیت سے گزر رہی ہے۔اس کے شہری ریاست کی طرف سے عدم مساوات اور ناانصافی پر مبنی سلوک کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرنے پر آمادہ و تیار رہتے ہیں۔لہذا بہتری اور نجات کا کوئی امکان ہمارے لوگوں کا منتظر نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شہری ریاست کے بعض کلیدی اہلکاروں ، عہدے داروں یا منصب داروں کے بعض ایسے فیصلوں پر تنقید کرنے کی جرات کر ہی لے ،کہ جن کا ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہونا صاف دکھائی دیتا ہو، اور جن کے لگائے زخموں کا درد آج بھی قوم محسوس کرتی ہو ، تو اس کی حب الوطنی پر سوالیہ نشانات لگانے شروع کر دیئے جاتے ہیں ۔عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے وہ دوست جو ماضی میں سسٹم کا حصہ رہے ہوں ،اور اب گھر بیٹھ جانے کے بعد بھی بوجوہ کثیرہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنے ادارے کے ماضی و حال کے معاملات کو قطعا ًدرست قرار دینے پر مصر رہتے ہوں ،وہ واقعتا دوستی کی بجائے حقیقتاً دشمنی کر رہے ہوتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے رہے اور جس کا نتیجہ پوری قوم خسارے میں منافع سمیت آج تک بھگت رہی ہے ۔ان کو ایسا کرنے کا حق کس نے دیا تھا؟ اپنے پے در پے آئینی انحرافات پر آج تک کسی نے قوم سے معافی مانگی؟ اس ملک اور قوم کی تعمیر کیسے اور کب کی جاتی ، جب پاکستان کو دنیا میں غیر جانبدار ملک بنانے کی بجائے پہلے بغداد پیکٹ ، پھر سیٹو سینٹو اور اسی سلسلے نے ملک کو سرد جنگ کا کرائے پر چلنے والا گرم ترین خچر بنا کر رکھ دیا۔یہ کام کسی پارلیمنٹ نے نہیں کیا تھا۔ یہ کام بعض منصب داروں نے انفرادی سطح پر کیا تھا۔ ضیا الحق کے بدترین مارشل لا تک ملک تعلیمی میدان میں ،تمام تر نظراندازیوں کے باوجود بہترین نتائج دیے رہا تھا۔پاکستان کے دونوں حصوں کے اساتذہ اور طالبعلم نمایاں اور قابل تقلید کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔قوم تعمیر ہو رہی تھی کہ ایک میز پر بیٹھ کر شکست کی دستاویز پر دستخط تبت کرنے کی تاریخ انسانی کی رسواکن ترین تصویر بنوا کر آدھے ملک کو بنگلہ دیش اور آدھے ملک کو ”سنگلا اور کنگلا دیش“ بنا دیا گیا اور آج تک کسی ذی روح نے شرمندہ تک ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔یاد رہے کہ ملک میں تعلیمی انحطاط کا بانی جنرل ضیا الحق اور اس زوال کی تکمیل کرنے والا جنرل پرویز مشرف تھا ،جس نے ایچ ای سی بنوا کر پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کا بیڑا غرق کر دیا۔دیگر محکموں کی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان بھی کرپشن یا ٹیکنکل خردبرد کا گڑھ ہے۔اور یہ ادارہ بھی، جیساکہ ذکر ہوا، جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عطا الرحمن کے لیے بنایا تھا ٹاسک یہ تھا کہ پاکستانیوں سے دماغ سے تعلیم کا کیڑا اور پاوں سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا کانٹا نکال دیا جائے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ قوموں کو ہمہ قسم کے بیوروکریٹ نہیں بنایا کرتے، لیکن اگر قوم غفلت یا تساہل کا مظاہرہ کرے تو یہی ہمہ قسم بیوروکریٹ قوم کا بیڑا غرق کر سکتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی مراعات ، اپنے معاشی تصرفات اور اپنے کاذب منصب و مرتبے کے تحفظ کا سامان ضرور کر لیتے ہیں۔ سب سے خطرناک روش جو ضیا الحق نے اختیار کی وہ معاشرے کو توڑنے اور منتشر و متفرق کرنے کےلئے ملاوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ تھا۔اس نے مذہب جیسی پیاری چیز کو فتنہ وفساد سے جوڑنے کا ناقابل معافی جرم کیا۔یاد رہے کہ مذہب کو مسلم کمیونٹی میں انتشار و افتراق لیے استعمال کرنے کا چلن انگریزوں نے ایجاد کیا تھا۔ قبل از تقسیم ہندوں کے برعکس مسلم کمیونٹی کے جدید انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت یہی طبقہ کرتا تھا۔وہ تمام ریلیجس اسکول جو انگریزوں کی مالی اور علمی معاونت سے قائم اور پھر کمیونل پالیٹکس میں متحرک ہوئے، وہ سب مسلم کمیونٹی کے جدید تعلیم حاصل کرنے کے شدید مخالف تھے۔سر سید احمد خان کو جن مشکلات اور اپنی ہی کمیونٹی کے ہاتھوں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ،وہ مشکلات اور رکاوٹیں راجہ رام موہن رائے کے سامنے نہیں آئیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندو کمیونٹی مسلم کمیونٹی سے قبل از تقسیم تقریباً اسی سال آ گے تھی۔اب آئیے پاکستان بننے کے بعد کا منظر ، ہندوستان کے لیے جواہر لعل نہرو کی تعریف بنتی ہے کہ اس نے ملک کو ایک سیکولر آئین دیا۔ادھر کیا ہوا؟ جناح کو قتل کر دیا گیا، ایک فیلڈ مارشل نے دھاندلی کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں شکست دے ڈالی۔اس دور میں فاطمہ جناح زندہ باد کہنے والے سیاسی کارکنوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں پولیس کی طرف سے جیل میں دس دس جوتے مارے جاتے تھے۔ پھر انہی مہربانوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے ہی ایک ملازم/ چوکیدار سے قتل کروا دیا اور اس قاتل کے خاندان کو دوامی تحفظ اور معاشی کفالت کا سایہ فراہم کیا۔یہی سہولت بعد میں لیاقت علی خان کے قاتل کو بھی فراہم کی گئی۔سچ بتاییے کیا ہندوستان میں ایسا ہو سکتا تھا؟ پاکستان میں آئین کی بجائے ایک قرارداد مقاصد منظور کروائی گئی اور ملک کا اسٹیئرنگ غلط سمت گھما دیا گیا۔یہ سب تو بربادی کی تمہید تھی۔اصل تباہی ضیا الحق کے دور سے شروع ہوتی ہے ۔جس طرح مذہب جیسی پیاری چیز کو کوڑا بنا کر پورے معاشرے کی ننگی پیٹھ پر برسایا گیا۔تعلیمی اداروں میں سے جماعت اسلامی کے پروردہ اساتذہ کے علاوہ باقیوں کا قلع قمع کیا گیا۔نصابات برباد کئے گئے۔یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔گویا پاکستان کے منصب داروں نے بھی انگریزوں کی طرح مسلم کمیونٹی کو برباد اور کمزور رکھنے کے لیے مذہب اور ملا ہی کو استعمال کیا۔اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔سر تن سے جدا جیسے نعرے اور توہین مذہب جیسے الزام لگا کر ہجوم کے ہاتھوں قتل یہ سب اسی سوچ کی خاص پیش کش ہے ۔ ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں ۔ شاید 1985/86 کا واقعہ ہے، ورلڈ بنک یا کسی عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کو پرائمری ایجوکیشن کی ترقی کے لیے میچنگ گرانٹ دی گئی تھی۔میں نیا نیا لیکچرار بنا تھا۔وائس چانسلر نے ایک اجلاس میں چند اساتذہ کو ٹاسک دیا کہ دو دن کے اندر اس گرانٹ کو خرچ کرنے کے لئے اپنی اپنی سفارشات لکھ کر دیں۔انہیں منسٹر کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کرنی تھی جس کا ایجنڈا اسی گرانٹ کو استعمال کرنے کے طریقے اور سلیقے تھے۔میں نے اپنی سمجھ کے مطابق سفاشات لکھ کردیں۔خیر اس کے بعد ضیا الحق نے اس گرانٹ سے ملک میں مسجد مکتب اسکیم شروع کی۔اس کے جانے کے بعد کسی حکومت نے وہ اسکیم بند کر دی اور تقریبا چھیاسٹھ ہزار ٹیچرز سڑکوں پر آ گئے تھے۔لیکن اصل واقعہ یہ رہا کہ ہندوستان میں راجیو گاندھی نے اسی گرانٹ سے اپنے ملک میں پرائمری سطح سے کمپیوٹر ایجوکیشن کا آغاز کر دیا اور آج ہندوستان آئی ٹی میں دنیا کا شریک کار اور ساتھی ہے۔
میرا قیاس ہے کہ؛ سو سال بعد مورخ یہاں کے حکمرانوں کو نہیں ، یہاں کے صابر و شاکر عوام کو مورد الزام ٹھہرایے گا ۔چلو اب مرزا اسد اللہ خان غالب کے شعر سنو اور سر دھنو ؛
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے