بڑے عرصے سے دل میں یہ بات گھر کئے ہوئے ہے کہ پیارا وطن پاکستان خوبصورت بھی بہت ہے چار موسم بھی موجود ہیں قدرتی نباتات سے مالا مال بھی، تیل سے سونے تک معدنیات سے بھرا پڑا ہے اس کے باوجود ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا سے اتنا پیچھے کیسے اور کیوں رہ گئے ؟یہ سوچ سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے اور جب بھی میں اپنے سوالوں جواب تلاش کرتا ہوں تو اس کا کوئی سرا سامنے نہیں آتا تاریخ پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی شروع ہو گئی تھیں پاکستان بنانے کا سارا کریڈٹ تو آل انڈیا مسلم لیگ کو جاتا ہے مگر مسلم لیگ قیام پاکستان سے بہت پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی ایک گروپ سر محمد شفیع اور دوسرا گروپ حضرت علامہ محمد اقبال کے ساتھ تھا ہندو اور مسلمان ایک بات پر متفق تھے کہ ہندوستان کو انگریز سرکار کے جبرو تسلط سے آزاد ہونا ہے 1930 کے خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال رح نے دو قومی نظریہ پیش کر دیا اور یہ علامہ صاحب کا بہت بڑا ویثرن تھا جو انگریز اور ہندو کی سازشوں کو بھانپ گئے تھے اس کے ساتھ ساتھ تاریخ میں گول میز کانفرنسوں کا ذکر بھی آتا ان میں قائد اعظم کی شمولیت کا بھی پتا چلتا مارچ 1940 کے لاہور میں جلسے کے بعد یہ تو طے ہو جاتا ہے پاکستان بننے جا رہا ہے اس کے بعد گاندھی ، نہرو اور آل انڈیا کانگریس کے رہنماں سے قائد اعظم محترم کے مزاکرات کا ذکر بھی ملتا ہے مگر آزادی وطن کے سلسلے میں قائد اعظم اور باقی مسلم لیگی رہنماں کے بارے میں تاریخ تقریبا خاموش ہے کہ 1940 سے 1947 کے دوران یہ تمام لیڈران عوام کے علاوہ کن کن ممالک سے رابطے میں رہے۔ امریکہ ، سویت یونین اور مسلمان ممالک کےساتھ دو طرفہ تعلقات کی بنیاد کیا ہو گی۔ ہمارے ناقص مطالعہ میں ایسی کوئی چیز یا نگارش نہیں آئی اس بارے میں تاریخ دان ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر ان تمام سوالات اور سوچوں کے لئے میں ذاتی طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا ہمارے سے پہلی نسل ایوب خان صاحب کے گن گاتی ہے۔ ہماری نسل نے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کو دیکھا اور ہماری نسل میں سے بھی بہت لوگ ان دونوں جنریلوں کے حمایتی ہیں لیکن ملک اس دوران پہنچتے پہنچتے خدا نخواستہ بالکل تباہی کے سرے پر پہنچ گیا ۔ اس طرح 9 مئی کا واقعہ ہو جاتا جن لوگوں کے ذمے یہ واقعہ آتا ہے وہ پچھلی فوجی رجیم کے دن رات گیت گاتے تھے ۔وہ فوجی رجیم بہت محبت وطن سمجھتے تھے اور اسی رجیم نے جب ان کو حکومت سے الگ کیا تو وہ غدار ، میر جعفر اور پتہ نہیں کیا کیا ہو گئے ۔ ان کی اپنی تقریروں اور تحریروں کے باوجود وہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں کس بری طرح اپنے مفادات کےلئے استعمال کیا گیا اور اگر ابھی بھی یہ لوگ نہ سمجھیں تو اللہ ہی حافظ ہے ۔2018 میں جب عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تو انہوں نے بھی کہا تھا کہ میں زرداری ، نواز شریف اورمولانا فضل الرحمان سے لوٹی ہوئی رقم انکے پیٹ پھاڑ کر بھی نکالوں گا۔ بد قسمتی سے عمران خان کے چار سال رہنے کے باوجود ایک پیسہ وصول نہیں کر سکے اور نہ کوئی کیس انکے خلاف منطقی انجام تک پہنچا۔ اگر ہم غور کریں تو عمران خان اپنے دور کا مضبو ط ترین وزیر اعظم تھا جس کے پاس وفاق میں، پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں بھی حکومت تھی ۔ عام طور پر عمران خان پبلک جلسوں اور میٹینگ میں کہتے رہتے تھے کہ پی ٹی آئی اور فوج ایک پیج پر ہیں ۔ اگر فرض محال نواز شریف ، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور دیگر قائدین کرپٹ اور بدعنوان تھے تو انہوں نے انکے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا ۔ آج رونے دوھونے سے کیا فائدہ؟ جب پی ٹی آئی کو اقتدار دیا گیا تھا تو باجوہ صاحب اور پاکستان آرمی بڑی جمہوریت پسند تھے اور جب اقتدار سے نکالا تو وہی صاحب غدار ہو گئے۔ میں کسی بھی پارٹی کی حمایت نہیں کرتا سب کی اپنی اپنی پسند اور نا پسند ہوتی ہے یہی جمہوریت کا تقاضا بھی ہے مگر ہمیں ہر چیز کا تجزیہ کرتے وقت وسیع الدماغی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہے 25 کروڑ عوام کا مطلب ہے 25 کروڑ چھوٹے اور بڑے دماغ ، تو ان کی سوچ کیسے ایک ہو سکتی ہے نا ممکن بات مگر ایک بات پر سب متفق ہیں اور ہوں گے کہ پیارا وطن پاکستان ہی ہماری چھت ہے ،ہماری ڈھال ہے ، ہماری عزت ہے اور سب سے بڑی بات ہماری پہچان ہے اس لئے ہم سب نے مل کر اس کی ترقی وترویج کے لئے کام کرنا ہے اور اپنے ساتھیوں ، دوستوں اور بچوں کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور بہتری کے لئے میرا، کیا کردار ہے اس سلسلے میں ہمیں اپنے اپنے کردار کو اجاگر کرنے سخت ضرورت ہے۔