کالم

ہم ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہیں

دینا تو جواب پاکستانی وزیر دفاع کا حق بنتا ہے لیکن میرا خیال وہ محمود غزنوی کو ڈاکو ثابت کرنے میں مصروف تو اپنے ہم منصب کا جواب نہیں دے رہے ہوں گے میں چاہوں گا کہ پاکستان کی بننے والی حکومت کہ سربراہ اس موقع پر اپنا بیان جاری کریں شاید وہ کسی اور ملک کے جنگ کا ڈیزائن تیار کر رہے ہوں گے تو چلو میں نے کہا کہ تبدیلی کا دیوانہ ہی اس کا جواب دے دے۔ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت پر حملہ: راج ناتھ سنگھ کے اشتعال انگیز بیان پر پاکستان کا دوٹوک جواب حال ہی میں بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک نہایت اشتعال انگیز بیان دیا، جس میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سلامتی پر سوال اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں دیا جائے۔ یہ بیان نہ صرف بے بنیاد اور اشتعال انگیز ہے بلکہ بھارتی قیادت کی دوہری پالیسی اور اندرونی عدم تحفظ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار کسی جارحانہ عزائم کے تحت نہیں بلکہ اپنے دفاع اور بقا کے لیے حاصل کیے۔ 1971 میں جب بھارت نے براہ راست فوجی مداخلت کر کے پاکستان کو دولخت کیا، تب ہماری قومی خودمختاری کو ایک بڑا دھچکا پہنچا۔ یہی وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو جیسے دور اندیش رہنما نے تاریخی الفاظ کہے:”ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔”یہ کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم تھا کہ آئندہ پاکستان کبھی اس طرح کی ذلت برداشت نہیں کرے گا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے اس عزم کو حقیقت میں بدلا۔ شدید عالمی دبا، پابندیوں اور قلیل وسائل کے باوجود پاکستانی قوم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ نہ کسی ایک فرد کی کامیابی تھی اور نہ کسی خاص حکومت کییہ پوری قوم کی اجتماعی قربانی اور استقامت کی علامت تھی۔بھارت کی جانب سے پاکستان کو "غیر ذمہ دار ایٹمی ریاست” قرار دینا ایک سفید جھوٹ اور منافقت پر مبنی الزام ہے۔ پاکستان کا ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دنیا کے محفوظ ترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ ہماری ایٹمی پالیسی "قابل اعتماد کم سے کم دفاعی صلاحیت” پر مبنی ہے، نہ کہ توسیع پسندانہ عزائم پر۔دوسری طرف بھارت کا رویہ اور اس کی موجودہ حکومت کی انتہا پسندانہ سوچ خود دنیا بھر میں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بھارت میں نہ صرف اقلیتیں غیر محفوظ ہیں بلکہ سیاسی قیادت آئے روز جنگی جنون اور "سرجیکل ایٹمی حملوں” کی بات کرتی ہے۔ رافیل طیاروں کی خریداری میں بدعنوانی کے انکشافات نے بھارتی دفاعی نظام کی شفافیت پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔اب راج ناتھ سنگھ چاہتے ہیں کہ دنیا یہ مان لے کہ بھارتی ایٹم بم امن کا پیغام دیتے ہیں اور پاکستانی بم صرف تباہی کا؟ کیا بھارتی ایٹمی ہتھیار محبت کے گلاب برساتے ہیں اور ہمارے ایٹم بم فقط خون و خاک کا پیغام لاتے ہیں؟ اگر دونوں کے اثرات یکساں ہیں تو صرف پاکستان پر شک کیوں کیا جا رہا ہے؟پاکستان کے ایٹمی ہتھیار جارحیت کےلئے نہیں، دفاع کے لیے ہیں۔ یہ ایک ایسا دفاعی حصار ہے جس نے جنوبی ایشیا میں گزشتہ دو دہائیوں سے طاقت کا توازن قائم رکھا ہے۔ اس صلاحیت کو کمزور کرنے یا عالمی نگرانی میں دینے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی شدید خطرہ ہے۔راج ناتھ سنگھ کو چاہیے کہ وہ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ بھارت کو اپنی اندرونی انتہا پسندی، اقلیتوں پر مظالم، اور جنگی بیانات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر دنیا واقعی ایٹمی سلامتی کی خواہاں ہے تو بھارت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور رویوں پر بھی سوال اٹھانا ہو گا۔آخر میں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ہماری قربانیوں، عزم اور بقا کی علامت ہے۔ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری دفاعی صلاحیت یا خودمختاری پر انگلی اٹھائے۔راج ناتھ سنگھ صاحب، بہتر یہی ہو گا کہ آپ اپنے اندر جھانکیں، اور پاکستان جیسے ذمہ دار ایٹمی ملک پر الزام تراشی سے گریز کریں۔ہم نہ صرف ایٹمی طاقت ہیں بلکہ ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے