گزشتہ سے پیوستہ
اندازہ ہوا کہ لائبریری کو کتب کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ ہمیں تو پہلے والی سنبھالنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ڈاکٹر انور نسیم نے تجویز کیا کہ اگر ممکن ہو تو کل آپ اور ڈاکٹر ریاض میرے ہاں آ جائیں ،وہاں بیٹھ کر تفصیلی بات چیت کریں گے۔ اگلے روز میں اور ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ڈاکٹر انور نسیم کے گھر پہنچ گئے۔ ایک ننھے بچے کی سی خوشی اور جوش کے ساتھ انہوں نے ہمارا استقبال کیا اور گھر کا تعارف کرواتے ہوئے ہمیں اپنی لائبریری میں لے گئے۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ان کے گھر کا نقشہ نیئر علی داد نے بنایا تھا۔بہت بڑا اور مرتب و مزئین گھر تھا۔ گھر کے مرکزی دروازے پر ایک بہت بڑا میورل آویزاں تھا ، جس پر فیض کی معروف نظم مرے دل میرے مسافر رقم تھی۔ گھر کے اوپن بیسمنٹ میں انہوں نے ایک کشادہ لائبریری بنا رکھی تھی ۔اس لائبریری میں انہوں نے ایک علم دوست ادیب اور ایک باعمل سماجی مفکر کے خوابوں کے عین مطابق اپنی تمام تر محبوبائیں جمع کر لی تھیں۔ زندگی میں ایک بات بروقت سمجھ لینی چاہیئے اور اگر ممکن ہو تو یاد رکھنی چاہیئے کہ ؛باوفا اور بیک وقت دیرپا محبوبہ صرف دل پسند کتاب ہی ہو سکتی ہے۔وہ نظر کے سامنے رہے ،تو اس سے زیادہ مسرت اور کہیں سے کیا ملے گی۔لیکن میں نے اس کار گاہ عشق و محبت کو اس وقت دیکھا جب وہ اجڑ رہی تھی۔اجڑ رہی کہنا شاید مناسب نہ ہو ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ؛ ڈاکٹر نسیم انور اس بساط محبت کو خود لپیٹ رہے تھے ۔انہوں نے اس گھر کا ایک حصہ جاپانی کرائے داروں کو دے دیا تھا۔ ڈاکٹر انور نسیم نے اس کشادہ لائبریری میں مہمانوں کے قیام کے لیے کمرے بھی بنوا رکھے تھے ۔جب ڈاکٹر انور نسیم یہ گھر بنوا رہے تھے ،اس وقت بھی کینیڈا کی شہریت ان کے پاس تھی، لیکن شہریت محبت پر غالب نہیں آ سکتی ۔ان کا دل اور دلبر جانی اسی ملک میں رہتے تھے ۔ ڈاکٹر انور نسیم سے کئی ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے وسیع اور سرسبز لان میں سردیوں کی دھوپ تلے کرسیوں پر بیٹھ کر لمبی گپ شپ گپ ، آخر آخر میں واٹس ایپ رابطہ کا ذریعہ بن گیا تھا۔لیکن واٹس ایپ کال میں ان کی آواز کی تازگی اور جوش اداسی کی طرف گریز کرتا سنائی دیتا تھا ۔گزشتہ چند ماہ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔وہ صاحب فراش تھے ،لیکن آس پاس تیماداری کےلئے کون تھا، یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ ؛پردیس بہت سارے انعامات اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ایک تحفہ "تنہائی” کا بھی ضرور دیتا ہے۔ ڈاکٹر انور نسیم نرے ادیب نہیں تھے ، اس کے عوض وہ ایک کھرے سائنسدان بھی تھے ۔ زندگی اور محبت کے متنوع اور بسااوقات غیر متوقع تجربات نے بھی ان کے اندر قنوطیت کو راہ پانے کی اجازت نہیں دی۔ان کا سائنسی ذہن اور منطقی رجحان انہیں ہمیشہ پر امید اور اسی وجہ سے شاداں و فرحاں رکھتا تھا۔ایک بار انہوں نے بڑی دلچسپ تفصیلات کے ساتھ اپنا ایک حد درجہ جذباتی واقعہ سنایا تھا ،جس کے مآل کو وہ تجربہ قرار دے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے اس تجربے سے یہ سبق سیکھا تھا کہ ہر اختتام ایک اچھے آغاز کی تمہید بن سکتا ہے۔میں نے انہیں کثرت سے مسکراتے ہوئے دیکھا، وہ بلند آہنگ گفتگو کرتے اور کھلکھلا کر ہنستے تھے، وہ اکثر ننھے بچوں جیسی ہنسی بھی دان کرتے ،ایسا کرنے والا ظاہر و باطن کا صاف و شفاف کردار رکھنے والا جوانمرد ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور نسیم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یہاں میں نے کلاسیکی ادب کا ذخیرہ جمع کیا تھا، دنیا کے ہر موضوع پر منتخب کتابیں جمع کی تھیں۔جب میں نے احباب کو بتایا کہ میں اب مستقل طور پر کینیڈا میں مقیم ہونا چاہتا ہوں ،اور سوچ رہا ہوں کہ اپنی لائبریری کا کیا کروں،تو کسی نے بھی مزید تفصیل یا میرا ارادہ دریافت کرنے کی بجائے کتابوں پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیئے۔اگر ہمارے لوگ واقعتا اپنے ہاتھ صاف رکھنے کی عادت اپنا لیں ،تو بہت ساری انفرادی اور اجتماعی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ میں نے ادب میں مفت کی شراب کا تو پڑھ رکھا تھا ،لیکن مفت کی کتابوں سے بے قابو رغبت میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔لیکن ڈاکٹر صاحب فیض احمد فیض سے متعلق کتابوں کی طرف میں نے کسی کو آنے کی اجازت نہیں دی۔فیض مجھے بہت ساری وجوہ سے پسند ہے ، مجھے لگتا ہے کہ فیض کی مسافرت اور جلاوطنی کے بہت سارے تجربات اور بہت ساری کیفیات مجھے زیادہ سمجھ آتی ہیں ،یا ایسا میرا خیال ہے ۔ ڈاکٹر انور نسیم ہر دعوی عشق کو سند کے ساتھ پیش کرنے پر یقین رکھتے تھے۔فیض کی دل پسند نظمیں انہوں نے لکڑی کی تختیوں پر لکھوا رکھی تھیں۔ پھر انہوں نے بک ریک سے فیض احمد فیض کے اولین کلیات کا دستخط والا نادر نسخہ نمبر 181 مجھے تحفتاً دیتے ہوئے اس کی اشاعت کے حوالے سے کافی دلچسپ باتیں بتائیں۔کہنے لگے ڈاکٹر صاحب یہ میرا ذاتی نسخہ ہے ،اور اب یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔’سارے سخن ہمارے’ فیض احمد فیض کا سات سو پچاس کی تعداد میں لندن سے شائع ہونے والا اولین کلیات ہے ۔فیض احمد فیض ان کی ہمہ وقت توجہ ،دلچسپی اور محبت کا عنوان تھا، فیض سے ذاتی تعلق تھا، فیض احمد فیض کے اولین کلیات سارے سخن ہمارے کے پہلے صفحے پر دینہ (جہلم)کی نسبت اور محبت کے اسیر گلزار کی ایک نظم رقم ہے، دینہ ہمارے ڈاکٹر انور نسیم کی محبت اور یاد کا عنوان بھی تھا، ڈاکٹر ریاض احمد ریاض صاحب نے ان کی رحلت کی خبر دیتے ہوے بتایا تھا کہ وہ کچھ عرصے سے بیمار تھے ، دینہ کو کثرت سے یاد کرتے تھے ،کہتے تھے کہ ؛ دینہ سے یہاں (کینیڈا)آ کر مجھے تنہائی نہیں خریدنی چاہیئے تھی۔ ایک سائنس دان ہمیشہ ذہنی اور علمی طور پر نت نئے امکانات کا متلاشی و متمنی رہتا ہے ۔وہ تجربات کے نتائج کا تجزیہ کر کے حدود علم میں توسیع کرتا رہتا ہے لیکن بطور ایک حساس انسان کے زندگی کی بساط لپیٹنا اور پھر سے بچھانا کوئی کھیل نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹر انور نسیم کے احوال باور کراتے ہیں کہ تنہائی کا علاج مکان نہیں ، مکین ہوا کرتے ہیں۔اپنے پیہم تجربات کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر انور نسیم جیسا حد درجہ زندہ دانشور اور دانش جو ، حیات کے اگلے مرحلے کی طرف روانہ ہو گیا، حق مغفرت کرے۔
کالم
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
- by web desk
- ستمبر 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 146 Views
- 2 مہینے ago