ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے، دل کے ارمان آنسوں میں بہ گئے!” یہ شعر آج کے حالات پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ایک ایسی جماعت، جو ہر وقت اپنی فوج سے محبت کا اظہار کرتی ہے، جو پاکستان کی سالمیت کےلئے ہمیشہ قربانیاں دینے کو تیار رہی ہے، اسے کس بنیاد پر ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے؟ہم نے بارہا کہا کہ فوج ہماری ہے اور ہم فوج کے ہیں۔ عمران خان نے بار بار کہا کہ وہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ چند افراد کے غلط فیصلوں کیخلاف ہیں، مگر پھر بھی ہر وقت ہمیں طعنے دیئے جاتے ہیں کہ ہم فوج کے مخالف ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ناانصافی پر مبنی ہے بلکہ ایک پوری قوم کو دیوار سے لگانے کے مترادف بھی لگتا ہے۔ جب ایک جماعت اور اس کے کارکنوں کو مسلسل یہ باور کرایا جائے گا کہ وہ ریاست کے دشمن ہیں، تو پھر ان کے جذبات کو قابو میں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ہزارہ، میانوالی، چکوال، آزاد کشمیریہ وہ علاقے ہیں جہاں فوج ہماری پہچان ہے۔ ہمارے گھروں کے چراغ اسی ادارے کے دم سے جلتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے 1965، 1971اور کارگل کی جنگوں میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ہمارا جینا مرنا اسی فوج کے ساتھ ہے، پھر بھی ہمیں غدار سمجھا جاتا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ ہم سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں؟ہم نے کبھی منظور پشتین کو نہیں مانا، کبھی بلوچ علیحدگی پسندوں کا ساتھ نہیں دیا، کبھی ان قوتوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ہم وہی ہیں جو 16دسمبر 1971 کے سانحے پر آج بھی آنسو بہاتے ہیں۔ ہمارے کئی بزرگ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور آج، انہی کے وارثوں کو ملک دشمن کہہ کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے؟یہ معاملہ صرف ہمارے ملک کا نہیں، دنیا بھر میں طاقت کے نشے میں مست حکمران ایسا ہی کرتے ہیں۔ یوکرین کی ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ میں 2012میں یوکرین گیا تو ہر گھر میں ایک خاص درخت نظر آیا۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ اس درخت کا کیا قصہ ہے؟ اس نے بتایا کہ جب زارِ روس نے وہاں ظلم کیا، تو لوگوں نے مزاحمت کے طور پر یہ درخت لگانا شروع کر دیا۔ روسی حکمرانوں نے اسے ایک خطرہ قرار دیا، میڈیا پر آ کر کہا کہ اس درخت سے بیماریاں پھیلتی ہیں، اس کی موجودگی سے فضا میں زہر گھل جائے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے مزید درخت لگا دیے!آج بھی یوکرین کے کئی شہروں میں وہ درخت نظر آتے ہیں، جو صرف ایک علامت تھے، مگر زارِ روس کی حکومت نے خود انہیں ایک بڑی مزاحمت میں بدل دیا ۔ یہی حال پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہمیں بار بار دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام میں مزاحمت بڑھے گی ۔ ہم پاکستان کے دشمن نہیں، بلکہ ان دشمنوں کے دشمن ہیں جو پاکستان کے سروں سے فٹبال کھیلنا چاہتے ہیں۔ ہم وہی ہیں جو فوجی شہدا کی قبروں پر دعا کرنے جاتے ہیں، جو سیال شریف اور خواجہ فرید کے درباروں پر حاضر ہو کر اپنے ملک کے استحکام کےلئے دعائیں مانگتے ہیں۔ ہم وہی ہیں جو پاکستان کے جھنڈے کو کبھی نیچے نہیں گرنے دیں گے۔ مگر ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے ۔ ساڑھے تین سال حکومت کرنے دی، پھر جبری طور پر نکال دیا۔ ہم نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر ملک کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ ہم نے وفاداری نبھائی، مگر پھر بھی ہمیں دھتکارا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان میں وفاداری کی یہی سزا ہے؟
خدارا! دشمنوں کی چالوں کو سمجھیں۔ اپنے ہی لوگوں کو غدار قرار دینا بند کریں۔ ہمیں دشمن بنانے کے بجائے دوست سمجھیں، کیونکہ جب اپنوں کو دھتکار دیا جاتا ہے تو وہی لوگ پھر تاریخ میں بڑے سانحات کا سبب بنتے ہیں۔ ہم اپیل نہیں کرتے، ہم راستہ دکھاتے ہیں۔ دشمنوں کو سبق سکھانے کے بجائے ان کی چالوں کو سمجھیں، یہی ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔
کالم
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے!
- by web desk
- مارچ 12, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 14 Views
- 12 گھنٹے ago