کالم

ہندوستان:ہمارا سرکاری اور اشتہاری موقف

میرے لیے ستم ظریف کے اس تجزیے کو برداشت کرنا سہل نہیں تھا کہ ہندوستان کی حالیہ اور گزشتہ پانچ سالہ کامیابیوں میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔کرتار پور راہداری بہ سرعت تمام کھول دینا ہویا اگست 2019 میں کشمیر پر چپ سادھ لینا ہو، پھر بیک ڈور کے ذریعے گپ ،شپ ہو کا بھی بنیادی کردار رہا ہے۔لہٰذا سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی سفارتی کامیابی پاکستان کی مہربانیوں کے بغیر ممکن نہیں تھیں ۔ستم ظریف نے جس پریشانی اور جس کیفیت میں یہ باتیں کیں،اس کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ اب نہایت ایمانداری کےساتھ ہمیں ہندوستان کے بارے میں موقف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش شروع کر لینی چاہیئے۔یوں بھی اب دشمنی کا چورن نہ بکتا ہے اور نہ کوئی پسند کرتا ہے۔ ضیاالحق کے دور حکومت میں ،جبکہ ایک طرف افغان جہاد اپنی رفتار سے جاری تھا توہندوستانی پنجاب میں تحریک خالصتان بھی اپنے عروج پر تھی۔سکھ کمیونٹی نے ہندوستانی ریاست کو زچ کر کے رکھ دیا تھا۔یہ تحریک نہایت خونریز انجام کو پہنچی ۔اس کے اثرات اندرا گاندھی کے قتل سے لے کر آج تک دنیا بھر میں پھیلی سکھ کمیونٹی کی آزاد خالصتان تحریک تک جاری و ساری ہیں۔سکھ کمیونٹی کی اسی پرزور تحریک کے اثرات اب ہندوستان اور کینیڈا کے باہمی تعلقات کی سرد مہری کا باعث بھی بن رہے ہیں۔جی 20سربراہی اجلاس کینیڈا کے مقبول وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور نریندر مودی کی دکھاوے کی خوش اخلاقی بھی اس قدر روکھی پھیکی سی تھی کہ اسے سبھوں نے نوٹس کیا۔بہرحال ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب ہندوستان کی حدود میں خالصتان ایک متحرک مسئلے کے طور پر حاوی نہیں ہے ۔اسی طرح پون صدی مسئلہ کشمیر کو درمیان میں رکھ کر دونوں ملکوں نے دشمنی کا کھیل رچائے رکھا ۔جنگ بھی لڑ کر دیکھ لی۔ بالآخر جہاں ایک طرف ہندوستان نے اپنے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے کشمیر پر موقف کو بھاڑ میں جھونک کر اسے ریاست کا حصہ بنا لیا،وہیں پاکستان کشمیر کا وکیل بنے تک رہ گیا۔ اس پون صدی کی ہمسایہ گیری اور کشمیر پر اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ موقف سے ہندوستان کی روگردانی نے پاکستان کو یہ سبق سکھایا ہے دنیا کافی بدل چکی ہے ۔پاکستان شروع دن سے امریکہ کا طفیلی ملک بن کر اس کے ہر معاہدے ، ہر پیکٹ کا حصہ بنتا رہا، یوں لگتا ہے کہ ایم آئی سکس نے پاکستان کواوائل عمری ہی میں انگلی سے پکڑ کر پینٹاگان کے حوالے کردیا تھا ۔پھر کیا بغداد پیکٹ اور کیا سیٹو اور کیا سینٹو،امریکہ کے ساتھ پاکستان ہر معاہدے کا حصہ رہا۔اس دوران ہندوستان نے ایک غیر وابستہ ملک کے طور پر اپنی شناخت کو مستحکم کیا ۔وہ روس کے کیمپ میں شامل رہا ،ساتھ ہی ساتھ اسے امریکہ کی چھپی آشنائی کی سہولت بھی دستیاب رہی ۔یہ ہندوستان کی سفارتی حکمت عملی کا کمال تھا۔اور ہم اس دوران امت مسلمہ کے سڑک کنارے بنے ڈھابے میں برتن دھونے کی مزدوری کرتے رہے۔ جی 20 ممالک کے سربراہ اجلاس کی میزبانی ہندوستان کی اسی سفارتی حکمت عملی کا کامیاب مظاہرہ خیال کرنا چاہئے لیکن جی 20 اجلاس میں ہندوستان کےلئے سب اچھا نظر نہیں آ رہا۔جیسا کہ کینیڈا کے ساتھ تلخی کی تشہیر ۔ہندوستان کےساتھ کشیدگی کی ایک ختم نہ ہو سکنے والی وجہ کینیڈا میں آباد اور سیاسی اہمیت کی حامل سکھ کمیونٹی ہے۔کینیڈا کی سکھ کمیونٹی اس ملک کی ایک موثر سیاسی اور سماجی قوت ہے۔سکھ رہنماو¿ں نے آزاد خالصتان تحریک کو جاری رکھا ہوا ہے۔ہندوستان آزاد خالصتان تحریک کی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ بھی ہے اور جانتا ہے اگر اس تحریک کی حوالے سے ہندوستان کی خوابیدہ سکھ کمیونٹی دوبارہ متحرک ہوگئی تو اس کےلئے سخت مشکل ہو جائے گی ۔ ہندوستان بیرون ملک دہشت گرد کارروائیوں میں ایک نام بنا چکا ہے۔اسکی ریاستی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان کی طرف انگلی اٹھا کر دنیا کے سامنے دہشت گردی کا ڈھول پیٹا جائے ،جبکہ اس شور شرابے میں ہندوستان پاکستان سمیت جہاں بھی اس کے مفاد میں ہو، دہشت گرد کاروائیاں کر تا رہے۔چند ماہ پہلے کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں آزاد خالصتان تحریک کے ایک پرجوش حامی اور ایک معروف وکیل کو قتل کر دیا گیا تھا ۔یہ خالصتان تحریک کےلئے ایک بڑا نقصان تھا۔سبھوں کا شک ہندوستان کی طرف جاتا ہے لیکن ہندوستان نریندر مودی کی ڈیزائنر داڑھی کے پیچھے چھپ کر ہر قسم کی قتل و غارتگری سے انکاری ہے۔الٹا ہندوستان کینیڈا سے شکوہ سنج رہتا ہے کہ وہ سکھ کمیونٹی کی آزاد خالصتان تحریک کی سرگرمیوں کو روکتا کیوں نہیں ۔ لیکن چونکہ کینیڈا پاکستان نہیں ہے ، اور چونکہ کینیڈا میں سکھ کمیونٹی ایک بڑی سیاسی اور سماجی حقیقت ہے ،اسلئے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر بات چیت اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے جیسے ڈراموں کا کوئی شوق نہیں۔بھلے جی 20 سربراہی اجلاس میں جسٹن ٹروڈو کی شمولیت کو ناخوشگوار قرار دیا جا رہا ہے ،لیکن میرے خیال میں یہی ناخوشگواری کینیڈا کی سکھ کمیونٹی کےلئے حد درجہ خوشگوار ثابت ہو سکتی ہے۔دوسری طرف جس شپنگ اور ریلوے ٹریک کے منصوبے کو جی 20 سربراہی اجلاس کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کو براستہ سعودی عرب اور اسرائیل یورپ سے ملانےوالے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو سوچتے اور تیار کرتے وقت جمہوریہ ترکیہ کے محل و وقوع اور پہلے سے موجود مستحکم رستوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگرچہ جمہوریہ ترکیہ کے صدر ہر بین الاقوامی سربراہی ہجوم کا حصہ بننے میں بڑی راحت محسوس کرتے ہیںلیکن ہندوستان اور اسکے دماغی جراثیموں سے ہم آہنگ ممالک برطانیہ،امریکہ اور فرانس ترکیہ کے مفادات کو ایسے منصوبوں کا حصہ بنانا پسند نہیں کرتے ۔ یقینی طور پر طیب اردوغان کو تنہائی میں بیٹھ کر غصہ تو ضرور آتا ہوگا۔جہاں تک سعودی عرب اور عرب امارات کا تعلق ہے،تو انہیں اپنے عرب دیہاتی پن کو چھپانے کے لیے ایسے منصوبوں میں شامل ہونا قابل فخر محسوس ہوتا ہے ۔ ان کا حال ان نودولتیوں جیسا ہے جو رقص کی ہر محفل میں نمایاں ہونے کےلئے کرنسی نوٹ اچھالنے اور کبھی کبھی ایک آدھ ٹھمکا لگا لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اب ان عرب ملکوں کا واحد استعمال اسرائیل کے راستوں میں پھول بچھانا اور کانٹے چننا رہ گیا ہے۔خیر یہ سارے وہ معاملات ہیں ،جن میں پاکستان کا کوئی کردار اور سچ پوچھئے تو کوئی حیثیت و اہمیت بھی نہیں ہے ، سوائے اس کہ پاکستان نے اپنی حکمت عملی سے ہندوستان کو ہر قسم کے فکر و تردد سے آزاد رکھا ہوا ہے۔ چلئے ،کوئی بات نہیں ، ہمارے سرکاری اور اشتہاری موقف میں کچھ نہ کچھ فاصلہ تو رہتا ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے