ہندوستان میں گائے کا ذبیحہ ہمیشہ ہی ایک تلخ موضوع رہا ہے۔ چونکہ ہندو مت میں گائے کو بابرکت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے ذبحہ کرنے پر اکثر اوقات ہندو مسلم فسادات بھی ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی 29 ریاستوں میں سے تقریباً 24 ریاستوں نے یا تو گائے کو ذبح کرنے یا گائے کا گوشت بیچنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔اس پابندی کا شکار صرف مسلمان ہی ہوتے ہیں، کیونکہ مسلمان ہی عید قربان اور دیگر مواقعوں پر گائے ذبیح کرتے ہیں۔ رواں سال عید قرباں پر بھارتی ریاست اترپردیش نے گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے مسلمان شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی نگرانی کیلئے جگہ جگہ پولیس کو تعینات کر دیا گیا ۔ یو پی حکام کا کہنا تھا کہ ریاست بھر میں نہ تو کھلے عام قربانی کی جائے گی اور نہ ہی سڑک کنارے ندی نالوں میں جانوروں کا خون بہنا چاہیے۔ اترپردیش پولیس نے ریاست بھر میں مسلمانوں کو گائے کی قربانی سے روکنے کی خاطر مساجد کے زبردستی اعلانات بھی کروائے گئے۔بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع منڈلا میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں انتظامیہ نے مسلمانوں کے 11 مکانات منہدم کردیئے۔منڈلا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رجت سکلیچا کا کہنا ہے کہ مویشیوں سے متعلق غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا گیا ہے۔ نین پور قصبے میں قربانی کی غرض سے ذبح کیلئے بڑی تعداد میں گایوں کی یرغمال بنائے کی اطلاع کی گئی، گھروں میں 150 کے قریب گائیں بندھی تھیں جبکہ ریفریجریٹرز سے گائے کا گوشت برآمد ہوا۔ حکام کو چھاپے کے دوران گھروں سے مویشیوں کی کھال اور ہڈیاں بھی ملیں۔ یہ علاقہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کیلئے بدنام ہے۔واضح رہے کہ انتہا پسند مودی حکومت نے مسلمانوں کو مقدس مہینے میں گائے کی قربانی پر پابندی عائد کررکھی ہے اور ذبح کرنے والے شخص کو 7 سال قید کی سزا سنائی جائیگی۔ بھارت بھر میں ہندو مذہبی انتہا پسندوں نے گائے کے ذبح کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ جس میں متعدد مسلمانوں کو قتل جیسے سنگین اقدامات کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اس مہم میں اترپردیش کی یوگی حکومت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ قربان عید کے موقع پر یوگی حکومت نے مقامی پولیس انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ علمائے دین اور مسلم رہنماو¿ں کو اس بات کیلئے راغب کریں، کہ وہ عید الاضحیٰ کی نماز اور قربانی گھروں پر ہی ادا کریں۔ گائے کی ذبیحہ کے سلسلے میں بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما سندیپ کمار نے انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے کہا ہے، کہ جب شیر کو مارا جاتا ہے، تو ساری دنیا کہتی ہے اس کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ہم گاو¿ ماتا کی نسل کشی روک رہے ہیں، تو ہمیں برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ شیر کا گوشت نہیں کھایا جاتا، جبکہ گائے کا گوشت کھانے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی رکھی ہے۔ بھارت میںکیرلا، ناگالینڈ، مغربی بنگال، اروناچل پردیش، میزورام اور سکم جیسی ریاستوں میں گائے کی ذبح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر میں بھی کٹھ پتلی ریاستی حکومت نے گائے کی ذبح پر پابندی لگائی تھی مگر کشمیر کی مقامی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اسی لئے اس پابندی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔بھارت کی اکثر ریاستوں میں زندہ گائے کو ایک ریاست سے، دوسری ریاست منتقل کرنا، غیر قانونی عمل ہے۔ لیکن پھر بھی ان ریاستوں میں بڑی تعداد میں قصاب خانے موجود ہیں۔ جن میں اکثریت غیر قانونی قصاب خانوں کی ہے۔ پولیس نے ان غیر قانونی قصاب خانوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہے، لیکن اکثر ناکام رہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر ہندو افراد بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔بھارت میں ایک طرف تو گائے ذبیح کرنے اور گوشت کھانے پر پابندی ہے، تو دوسری طرف بھارت بیف برآمد بھی کرتا ہے۔ گوشت فراہم کرنے کے لحاظ سے مجموعی طور پر بھارت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جو سب سے زیادہ گوشت فراہم کرتا ہے۔ تاہم جو گوشت بھارت فراہم کرتا ہے اس میں زیادہ تر بھینس کا گوشت ہوتا ہے۔ جو کہ ہندو مت میں مقدس نہیں مانا جاتا۔گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے بعد ممبئی کے نزدیک مہاراشٹرا کی سب سے بڑی منگل منڈی جہاں گائے اور بیل بکتے تھے۔ اس دفعہ اجاڑ پڑی تھی۔ گائے اور بیل کے بیوپاری گاہکوں کے منتظر ہیں، لیکن خریدار موجود نہیں۔ ان بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس بیل کی ایک جوڑی چالیس ہزار بھارتی روپوں میں با آسانی فروخت ہو جاتی تھی، لیکن اب کوئی ایک جوڑی کے بیس ہزار بھی دینے پر تیار نہیں۔ مہاراشٹرا قصاب ایسوسی ایشن کے صدر کہتے ہیں کہ اکثر قصاب اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ گائے کے گوشت پر پابندی نے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک 50 سالہ شخص کو ہجوم نے اس وقت ہلاک کر دیا۔ جب یہ افواہ پھیلی کے مذکورہ شخص اور اس کے گھر والوں نے گھر میں گائے کا گوشت چھپا کر رکھا اور وہ بیف کھاتے ہیں۔ اتر پردیش میں گائے ذبح کرنے کی افواہ کے بعد مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوچکا ہے۔ریاست بہار سے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے حامیوں نے گائے کے گوشت کے خلاف ایک زہر آلود مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ہندو اکثریتی آبادی والے بھارت میں گائے کے ذبح اور اسمگلنگ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر دیکھی جاچکی ہے، جہاں جھارکھنڈ سمیت متعدد ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنا قابل سزا جرم ہے۔