حکومت ایک طرف بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سے چھوٹ دینے اورغریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی دعوے کر رہی ہے تودوسری جانب ایسے اقدام بھی کر رہی ہے کہ جس سے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے پہ اضافہ حکومتی دعووں کو خاک میں ملا رہا ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں حکومتی ادارے خود بتا رہے ہیں کہ ملک تاریخ کی بدترین مہنگائی کی زد میں ہے۔ایک عام آدمی کیسے ان دعووں پر یقین کرے کہ اسے ریلیف مل جائے گا،اس کا ثبوت یہ ہے کہ نیپرا نے ہوشربا مہنگائی اور کم و بیش 9مدوں پر مشتمل بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے پریشان حال تنخواہ دار صارفین کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اپریل تا جون 2022 کی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی 3.39روپے فی یونٹ مزیدمہنگی کرنے کی منظوری دی ہے جس کا اطلاق اکتوبر تا دسمبر تین ماہ کے بلوں پر ہوگا۔ایسے عالم جہاں توانائی کے شعبے میں روز بم گرائے جا رہے ہیں وہاں دیگر غذائی اجناس پر بھی اس کا اثر پڑرہا ہے۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تاریخ کی بد ترین مہنگائی سے پریشان شہریوں کو فلور ملرز اوردودھ بیچنے والے ریٹیلرز اور کمپنیوں نے قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے ایک اور جھٹکا دے دیا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران قیمتوں میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فلور ملز نے اگست کے آخری ہفتے کے 94 روپے کے مقابلے میں اب آٹے کی قیمت 99 روپے فی کلو مقرر کی ہے جب کہ سپر فائن اور فائن فلور کے نرخ اب 104 روپے مقرر کردیے گئے جو کہ اس سے قبل 96 روپے فی کلو تھے۔ 10 کلو آٹے کے تھیلے کا نیا ریٹ 995 روپے مقرر کیا گیا ہے جو کہ اس سے قبل 945 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ یکم ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے جاری کردہ سینسیٹو پرائس انڈیکیٹر کے مطابق، 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 25 اگست کو ایک ہزار 880 روپے سے بڑھ کر ایک ہزار 960 روپے تک پہنچ گئی۔ ریٹیلر دکاندار 5 کلو برانڈڈ فائن آٹے کے تھیلے کے لیے 580 روپے وصول کر رہے ہیں جبکہ اس اضافے سے قبل 550 روپے چارج کر رہے تھے جبکہ 10 کلو کے تھیلے کی قیمت 11 سو روپے کردی گئی ہے جو اس سے قبل ایک ہزار ایک سو بیس یا ایک سو تیس روپے تھی۔ اس ضمن میںریٹیلرز کا کہنا ہے کہ سیلاب اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث کئی علاقوں سے گندم کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں گندم کی سپلائی کافی کم ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کے 100 کلو تھیلے کی قیمت اب 8500 روپے ہوگئی جو چند روز قبل تک 7800 روپے تھی۔ اس پہ ظلم یہ کہ دوسری جانب، 10 روپے اضافے کے بعد ایک لیٹر تازہ دودھ کی قیمت اب 180 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ اس اضافے سے قبل تازہ دودھ کی فی لیٹر قیمت جولائی میں 20 روپے اور مارچ میں 10 روپے بڑھائی گئی تھی جو کہ اس اضافے سے قبل 140 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔ دوسری جانب دودھ بنانے والی کمپنیوں نے بھی ریٹیلرز کو قیمتوں کی نئی فہرست جاری کر دی ہے جس میں 20 روپے فی لٹر اضافہ دکھایا گیا ہے جس کے 27 ستمبر سے اطلاق کے بعد قیمت 220 روپے جائے گی جبکہ مئی میں یہ 180 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔دیگر غزائی اجناس کا بھی یہی حال مرغی ،آلو پیاز اور ٹماٹر عام آدمی کے لئے درد سر بن گئے ہیں،یہ سب حکومت کی ناکام پالیسی کا نتیجہ ہے گھی اور آئل قیمتیں بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں جبکہ عالمی منڈی میں ککنگ آئل کی قیمتیں کافی کم ہو چکی ہیں پاکستان میں اس کا فائدہ عام آدمی تک منتقل نہیں ہو رہا۔ ملک میںمہنگائی کی کیفیت یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسا ادارہ آنے والے دنوں میںملک مہنگائی جاری رہنے کی پیش گوئی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق اندرون ملک 31۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ مبصرین مہنگائی کی موجودہ کیفیت کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح سے تعبیر کر رہے ہیں۔ جبکہ یوٹیلیٹی اسٹورز، جنہیں عام لوگوں تک ضروری اشیا سستے داموں پہنچانے کا ذریعہ کہا گیا ہے عوام کی نظروں میں ناکام ادارہ ہے۔ سستی اشیا فراہم کرنے کے لئے قائم کئے گئے یوٹیلیٹی اسٹورز پر بچوں کے دودھ کے پیکٹ سے لیکر چائے کی پتی ،دلیہ ،مصالحوں ، نوڈلز،سویاں سمیت ضروری اشیا کے نرخوں میں ایسا ہوشربا اضافہ نظر آ رہا ہے کہ عام دکانداروں کے پاس تو اس سے سستی اشیا ملنے کا تصور بھی محال ہے۔ پیاز ، ٹماٹر، آلو، سمیت پھلوں اور سبزیوں کے دام سیکڑوں روپے تک چڑھے ہوئے ہیں جبکہ مزدور طبقے کی آمدن کا عالم یہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ایک وقت کی روٹی کھائے یا رہائش کا کرایہ دے۔ اب توسماجی و فلاحی تنظیموںکو بھی دستر خوان چلانا مشکل نظر آرہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام ایک تکلیف دہ سورتحال دوچار ہے،بجلی اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اورآئی ایم ایف کے دباﺅ میں آکر بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کی گئی ہے پاکستان میںاس کے نرخ مغربی ممالک سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں، ملک کا33 فیصد طبقہ خط غربت سے نیچے اور 47 فیصد غریب و متوسط معاشی حالات میں زندگی گزار رہا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیم بنیادی ضروریات زندگی ہیں جو رفتہ رفتہ توانائی کے اخراجات کی نذر ہو رہے ہیں۔
ایف سولہ طیارے،مرمت کےلئے پاک امریکہ معاہدہ
امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی مرمت کا ساز و سامان فراہم کرنے کے لیے 45 کروڑ ڈالرز کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ واشنگٹن کے مطابق ان آلات کے مجوزہ فروخت سے خطے میں بنیادی فوجی توازن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے موجودہ ایف سولہ جنگی طیاروں کی مرمت اور معاونت فراہم کی جائے گی۔ یہ اچھی پیش رفت ہے تاہم اس معاہدے میں پاکستان کو کسی نئے قسم کے ہتھیار کی صلاحیت فراہم نہیں کی جائے گی۔ امریکہ نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی مرمت کے معاہدے سے علاقائی طاقت کے توازن میں کوئی فرق نہیں پڑنا چایئے۔پینٹاگون کا کہنا ہے کہ جنگی طیاروں کی مرمت کے سامان کا ٹھیکہ ایرواسپیس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کو دیا جائے گا۔اس حوالے سے امریکی ڈیفنس سکیورٹی کوآپریشن ایجنسی ڈی ایس سی اے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایس سی اے نے کمپنی کو مطلوبہ اجازت فراہم کر دی ہے۔ڈی ایس سی اے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی دیکھ بھال اور معاونت برقرار رکھنے کی درخواست کی تھی۔ اور امریکی کانگریس کو اس ممکنہ فروخت کے حوالے سے مطلع کر دیا گیا ہے۔ امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے پاکستان کی فضائی جنگی صلاحیت کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے پاکستان کی فضائی جنگی صلاحیت کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ پاکستان کے پاس مجموعی طور پر 85 ایف سولہ طیارے ہیں جن میں سے 66 پرانے بلاک 15 طیارے ہیں اور 19جدید ترین بلاک 52 ہیں۔ یہ طیارے امریکی ٹیکنیکل سکیورٹی ٹیم کی نگرانی میں ہیں۔ پاکستان اپنے دفاع کے لیے جنگی طیاروں سمیت مختلف قسم کا اسلحہ اور جنگی سازو سامان امریکہ سے خریدتا رہا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز1981میں ہوا تھا جب افغانستان میں سویت یونین نے مداخلت کی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی حامی بھر لی تھی تاکہ انھیں سویت یونین اور افغان طیاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
اداریہ
کالم
ہوشربا مہنگائی ،عوام کو ریلیف کب ملے گا؟
- by Daily Pakistan
- ستمبر 8, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 797 Views
- 2 سال ago