افغانستان وہ واحد اسلامی ملک کہ جس نے نہ صرف پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کی بلکہ نوزائیدہ اسلامی مملکت کیخلاف علیحدگی پسندوں کو متحرک اور پاکستان کے کئی حصوں پر بے بنیاد دعوے کر ڈالے۔افغانستان کی برادر اسلامی ملک سے مخاصمت پاکستان اور پاکستانی قوم کی بے پناہ قربانیوں، جذبہ اخوت اور انصار مدینہ کا کردار ادا کرنے کے باوجود ختم نہ ہوئی جس کی حالیہ مثالیں افغان حدود سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں، آئے روز ڈیونڈر لائن پر اشتعال انگیزی اور پاکستان کی جانب سے لگائی گئی حفاظتی باڑ کو ہٹانا۔اب گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی دعوت پر منعقدہ تقریب کے دوران قومی ترانے کے احترام میں افغان قونصل جنرل نے سفارتی آداب کو پامال کر کے نہ صرف خبث باطن کا اظہار کیا بلکہ اپنے میزبانوں کو بھی تنقید کی زد میں لے آئے. ہمارے ملک کے بھی کیا احوال ہیں کہ جہاں ایک ملک کے سفیر کی اسناد اور اقامہ تک ایکسپائر۔مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود ابھی حکومت پاکستان کی جانب سے افغان قونصلر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر نکالا نہیں گیا۔یہ درست کہ پاکستان اور پاکستانی قوم نے ان پر جو احسانات کئے انکو کبھی جتایا اور نہ دہرایا کہ ہمارا ظرف اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ قوم سنت انصار کی ادائیگی کے بدلے کی طالب. مگر افغانستان نے بدلے میں جو کیا اور دیا اس پر خوشحال خان خٹک کا ایک ہی شعر کافی
چہ دستار تڑی ہزاردی،ددستار سڑی پہ شماردی
(ویسے تو ہزاروں لاکھوں لوگ پگڑی باندھتے ہیں لیکن پگڑی کے لائق "سر”کہیں ہزاروں لاکھوں میں ایک دو ملتے ہیں)
افغان قونصل جنرل کے اقدام کہ جسے سفارتی بدتہذیبی کہا جا سکتا ہے کے ساتھ ان کی میزبان پی ٹی آئی بھی تنقید کی زد میں، کہ طالبان کو اقتدار میں لانے کی جو سہولت کاری کی گئی اسے حالات غلط ثابت کر رہے ہیں کہ کم از کم ماضی میں اشتعال انگیزی کے واقعات اتنے تواتر سے نہیں تھے جتنے محبوب طالبان کے بعداوپر سے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے اعلانات و اقدامات نے لسانیت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی مگر شکر ہے کہ اہل پنجاب نے کبھی بھی عصبیت کا رنگ اپنے پر غالب نہ آنے دیا بلکہ ہر صوبے کے عوام کےلئے اس کے بازو کشا رہے اور دل فرش راہ ،مگر گنڈا پور نے اپنی طرف سے آگ بھڑکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر حد یہ ہوئی کہ کپتان نے نہ صرف اپنے شہد نوش وزیر اعلیٰ کی صحافیوں اور خواتین بارے جلسہ عام میں فحش گفتگو، بدتمیزی اور بدتہذیبی کی حمایت کی بلکہ افغان قونصل جنرل کے اقدام کی توجہیات دیکر اپنی روایت کو برقرار رکھاکہ شاید انکی جماعت اب تہذیب، اقدار اور رواداری جیسی روایات کی امین رہی اور نہ علمبردار۔سو اب انکی اخلاقی غندہ گردی کو در خور اعتنا جاننا نہیں چاہیے ۔افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک مگر اس طرف سے کبھی بھی ہمیں ٹھنڈی ہوا نہ ملی اور یہ ملک پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا مرکز ہی رہا اور اب طالبان حکومت بھی اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔یہ درست کہ موجودہ طالبان قیادت کا کوئی سیاسی پس منظر ہے اور نہ علمی تاریخ، طاقت کے بل بوتے پر وہ اس نظام کے قیام کے خواہاں ہیں جو صدیوں قبل دم توڑ چکا۔ان کے ہاں اسلام کے جدید تصورات کے قبول کی گنجائش ہے اور نہ وہ جدید دنیا کے سنگ چلنے کو تیار۔یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ تنہا. گرچہ انکے اندر بھی نظریات تبدیلی کی کشمکش جاری اور ایک دھڑا طاقت اور دھونس کی بجائے بات چیت اور سفارتی ذرائع سے معاملات کے حل کا خواہاں بالکل اسی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی اس وقت نظریاتی کشمکش جاری،اپنے قیام سے لیکر 2011تک ان کی جد و جہد خالصتا سیاسی و نظریاتی رہی۔ 2011 میں درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی درس گاہ میں داخلہ کے بعد کپتان اصول کی بجائے مفادات کی سیاست کی راہ پر چل نکلے اور پھر انہیں اس میں کامیابی بھی ملی۔دور اقتدار میں وہ پاکستان کی روایتی فکر اور نظریہ کے علمبردار رہے جو ہر صاحب اقتدار کی مجبوری اور اس کےلئے ضروری ۔مگر اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور سے ہٹ گئے اور منزل کے حصول کی بجائے کپتان غیر ضروری امور میں الجھ گئے۔ماضی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو غلط ثابت کرنے کا بہترین موقع انہوں نے اپنے غیر لچک دار رویہ اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔وہ نجات دہندہ کے طور پر اپنے آپ کو منوا سکتے تھے مگر حزب آختلاف کو چکی کی مشقت میں کسنے کی بے فائدہ مشق میں پہلی بار ملنے والے اقتدار کا قیمتی موقع ضائع کر بیٹھے۔ اداروں میں اصلاح کی بجائے اپوزیشن کی اصلاح کے شوق نے کپتان کو منزل سے دور کر دیا تبدیلی کا علمبردار اور قبولیت و مقبولیت کی معراج پانے والا کپتان بغیر تاریخ رقم کئے اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔اقتدار سے نکلنے کے بعد پہلے پہل انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا مزاحمانہ انداز چرایا مگر بھٹو کی طرح انکے افکار تھے نہ تصورات اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دامن میں تو ایٹمی پروگرام، اسلامی سربراہی کانفرنس، آئین پاکستان اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے جیسے تاریخی کارنامے تھے جبکہ کپتان اس سے تہی دامن۔انہوں نے تو اپنے دور اقتدار مخالفین کی مشقیں کسنے، بلند و بانگ دعوﺅں اور 2028 تک برسراقتدار رہنے کی منصوبہ بندی کے سوا اور کیا کیا۔اپوزیشن میں آ کر بھی وہ نہ سنبھلے بامقصد سیاسی جدوجہد، پی ڈی ایم کی نااہل حکومت کو چارج شیٹ کرنے ، اپنے دور حکومت کے ادھورے پروگرامز کی تکمیل اور عوام میں مثبت سیاسی شعور بیدار کرنے کی بجائے وہ ان سے الجھ بیٹھے کہ جن کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے تھے۔کپتان تو کپتان ایک فاطر العقل بھی یہ بات جانتا اور خوب سمجھتا ہے کہ جو گھوڑا سوار کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر دوڑنا جانتا ہے اسے گرانے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔مگر یہاں بھی خان کی ضد، انا اور رعونت آڑے آئی۔یاران محبت اور سیاسی کارکنان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ آپنی ضد کے پکے نکلے اور زبان سے وہ کچھ کہتے رہے جو ان کے شایان شان تھا اور نہ جس کی ضرورت،پھر ایسی تحریک شروع کی کہ جس کا انجام کال کوٹھڑی کے سوا کچھ نہ تھا۔یہ تو بھلا ہو کچھ ججز کا کہ جو انہیں ریلیف پہ ریلیف دیکر ان کے کارکنان کی امیدوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔وگرنہ خان نے تو اپنے تئیں اپنے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقتدار کے اختتام کے بعد پی ٹی آئی میں نظریات تبدیلی کی کشمکش ایک جنگ کی صورت میں شروع ہوئی اور آخر کار ہی ٹی آئی تعمیری سیاست سے ہٹتی چلی گئی تاآنکہ 9مئی کا واقعہ رونما کیا۔کپتان کے دل و دماغ پر پہلے پہل بھٹو کی جولانی غالب آئی اور پھر شیخ مجیب ان کے آئیڈیل بنے جس کا اثر انکی اور کارکنان کی تحاریر، تقاریر اور سوشل میڈیا پر نظر بھی آیا. پھر کپتان نے اپنے اکانٹ سے وہ ٹویٹس اور ایسی ویڈیوز و تصاویر آپ لوڈ کر ڈالیں کہ جنہیں ڈیجیٹل 9مئی کہا جا سکتا ہے ۔کپتان کی اسی افتاد طبع نے نہ صرف پارٹی کو اس حال تک پہنچایا بلکہ وہ خود پابند سلاسل، نظریاتی کارکن لاپتہ اور پارٹی قیادت کے مزے وہ لے رہے ہیں جن کا دور دور تک کپتان سے واسطہ تھا اور نہ جماعت سے اس سارے قضیے کے بعد اسے آزادی کی جد و جہد قرار یا جرات و استقامت کا نام دینا کسی صاحب فہم و دانش کو زیب نہیں دیتا ہاں مگر کھلاڑی اسے طرز حسینی کا نام بھی دیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اب انکی وابستگی شخصیات سے ہے نظریات سے نہیںکہ جب تک نظریات غالب رہے اس وقت تک ملکی سلامتی، عزت، وقار اور وفاداری کی دستار سر پہ رہی مگر افسوس کہ اب موجود سیاسی قیادت میں دستار کے لائق کوئی سر دستیاب نہیں۔
کالم
ہوش کے ناخن لئے جائیں
- by web desk
- اکتوبر 16, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 246 Views
- 1 سال ago

