کالم

ہوش کے ناخن لو

کسی ملک کی تباہی کی وجہ اس کا جہاں غریب اور کمزور ہوتاہے وہیںیہ بھی یہ ہوتاہے کہ وہ ملک بااثر ،ترقی یافتہ اور سپرپاورز ممالک جیسی حامل قوتوں کے مسلسل زیراثر ہوتاہے جنہوں نے عالمی سیاست اور معیشت پر اپنا مکمل غلبہ اور کنٹرول رکھنے کی خاطر وہاں پرانے نو آبادیاتی نظام کی بجائے اِن ڈائر یکٹ رول کا طریقہ اپنایا ہواہے چونکہ کمزور اور غریب ممالک میں غربت ، جہالت اور بے روزگاری عام ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے ملک دشمن عناصر ، اندرونی و بیرونی سازشی لوگ ،لالچی و خود غرض افراد آسانی سے مل جاتے ہیں جن کےساتھ مل کر یہاں جمہور یت کے نام کا تڑکا لگاکر،اپنی من مرضی کا سیاسی و افسرشاہی ڈھانچہ تیار کرلیتے ہیں کہ ان کے ایجنڈے کے عین مطابق ،ان کے مفادات و اغراض کو برابر تحفظ دیتے ،ملک کا آئین و قانون تیار کریں ۔ آسانی سے اس میں ترمیم یا تنسیخ بھی کرسکیں اور ایسا جمہوریت کے نام پر ، جمہوریت کے خوبصورت لبادے میں اُوڑھ کر کیا جاتا ہے ۔اگر ہمارے ملک کے آئین وقانون ،ترامیم و تنسیخ کے معاملات ،اقتدار کے ایوانوں میں موجود اہم شخصیات ،عام وخاص ،بڑے اور اہم سرکاری و نیم سرکاری اداروں میںاہم عہدوں پر موجود افسر شاہی اور ان کی اہلیت وکردار پر ایک نظر ڈالی جائے تو سب کچھ نمایاں ہوکر سامنے آجائے گااور لکھے گئے ایک ایک حرف کی سچائی اورصداقت کی گواہی دے گاکہ ہمارا حال کیسا ؟ یہ ہمارے کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ یہاں آئین و قانون کو ”موم کی گڑیا “سمجھ لیا گیاہے جسے جب ،جس وقت ،جیسے چاہے ،کوئی اپنے فائدے اور حق میں بدل ڈالے،اِس میں ترمیم اورتنسیخ کرلے ۔ملک عزیزمیں یہ بات سبھی جانتے ہیں معزز اسمبلیوں میںبیٹھے نمائندوں کی اکثریت نہ تو صادق اور امین ہے اور نہ ہی اپنے منصب کی حقیقی اہلیت رکھتی ہے اور بیرون ملک میں بھی اِن اور ان کے سربراہان کے سیاہ کارناموں ،لوٹ مار ،رشوت ستانی اور نااہلی کی داستانیں ہر زبان زدعام ہیں ۔ ہمارے ملک کے تمام اہم قومی اداروں میںاعلیٰ سرکاری عہدوں پر کرپٹ اور نااہل افسران چن چن کر ملکی خزانہ اور دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کےلئے لگائے جارہے ہیںجس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ ادارے مکمل تباہ ہوچکے اور کچھ ہونے جارہے ہیں۔رشوت ستانی کی انتہاءدیکھئے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ سے لے کر چپڑاسی تک ہرفرد ملکی خزانے اور ملکی وسائل کو لوٹنے میں مصروف ہے اور اس کا انسداد کرنےوالے تمام ادارے اور ان میں تعینات افسران و عملہ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر الٹا ان کی مدد اور ان کو تحفظ دینے میں مصروف ہیںکیونکہ ہمار ے اعلیٰ ترین ایوان اور اقتدارمیں بیٹھے افراد نے اسی مقصد کےلئے ان کو چن چن کر لگایا ہے تاکہ وہ ملکی خزانے کو لوٹنے اور لٹانے کے عمل کوبلاروک ٹوک جاری رکھ سکیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح لاءاینڈ آرڈر نافذ کرنےوالے جملہ ادارے اور ان کے افسران و عملہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے نام نہاد عوامی نمائندوںاور ان کے آلہ کار پسندیدہ سرکاری افسروں،ان کے فیملی ممبران یا دوست احباب کی رشوت ستانی و دیگر بدا عمالیو ںکے مقدمات کی تفتیش سے لے کرعدالتوں میںسماعت کے عمل تک ان کو قانون کی گرفت میں لانے اور قرارواقعی سزادلانے کی بجائے ان کو ہر سطح پر تحفظ دینے اور بچانے کی کوشش میںمصروف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک سیاسی و معاشی طور مضبوط ہونے کی بجائے تنزلی کا شکار ہے ۔ ہمارے ملک میں محب وطن اور اہل قیادت کا مکمل فقدان ہے۔ملکی معیشت تباہ حال ہے ۔قتل و غارت گری اور لاقانونیت کا دوردودہ ہے۔ ملک کے حکمرانوں اور کرتا دھر تا شخصیات میں ویسے ہی احساس زیاں نہیں رہااور معزز پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان اسمبلی کی اکثریت ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک صحیح معنوں میں جمہوریت اور اِس کے ثمرات سے مستفید ہونے کی بجائے تباہی و بربادی کے دہانے پر ہے اور اُوپر سے ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارا آئین و قانون بھی اس میں بہتری اور اچھائی لانے سے یکسر قاصرہے۔ اہل عقل و دانش مسلسل چیخ چیخ ، پکارپکار کہہ رہے ہیں کہ عقل کے ناخن لو ،اپنے میں سدھا ر لاﺅمگر ہمارے ارباب بست وکشاد اپنے ا قتدار و اختیار کے نشے میں دھت ، ڈوبے ہوئے اتنے مگن ہیں کہ اُنکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی اور وہ اِس حوالے سے کچھ سننابھی اپنی توہین گردانتے ہیں۔ تباہ ہونے کو تیار مگرخود سے سمجھنے کی طرف ذراسابھی راغب نہیں ہیں۔یہی چیز خوشحال و مستحکم پاکستان کی راہوںمیں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہے ۔سب سے بڑھ کر ہمارے آنےوالے کل پر سوالیہ نشان بنی، منہ چڑھائے،ہماراہی مذاق بنارہی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے ،بڑھے پھولے اورہمارے ملک کا نام بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑاہوتو ہمیں ان عوامل پر کام کرنا ہوگا ، تبھی وہ کامیابی ملے گی جس کی تمنا ہم اپنے دل میں رکھتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے