اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنی تازہ رپورٹ میںکہاہے کہ بھارت کی مسلح افواج خصوصی اختیارات ایکٹ اے ایف ایس پی اے اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کی کچھ دفعات شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر)کی تعمیل نہیں کرتی ہیں۔کمیٹی نے عدم استحکام کا شکار شورش زدہ علاقوں جیسے منی پور، مقبوضہ جموں وکشمیر اور آسام کے اضلاع میں ان قوانین کے طویل اطلاق پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان سے غیر قانونی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ان خلاف ورزیوں میں طاقت کا بے تحاشہ استعمال سرفہرست ہے اور اسکے نتیجے میںٹارگٹ کلنگ، غیرقانونی حراست، جنسی تشدد، جبری نقل مکانی، اور تشدد شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی کمیٹی نے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ اقلیتی گروپوں اور مقبوضہ علاقوں میں تشدد کے خاتمے کےلئے ٹھوس اور موثر اقدامات کرے۔کمیٹی نے بھارتی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ امتیازی سلوک کےخلاف جامع قوانین اپنائیں۔ مذکورہ رپورٹ میں اقلیتی کمیونٹی یعنی مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں سمیت چند دیگر ذاتوں اور قبائل کے علاوہ ایل جی بی ٹی آئی افراد کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی گئی، اور ان کے خدشات کو دور کرنے کےلئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔اسی طرح سرکاری ملازمین، قانون نافذ کرنے والے افسران، عدلیہ اور کمیونٹی لیڈروں کو ٹریننگ فراہم کرنے کی تجویز دی تاکہ عوامی آگاہی میں اضافہ ہو، اس کے علاوہ تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی آئی سی سی پی آر کی ذمہ داریوں کو برقرار رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ شورش زدہ علاقوں میں انسداد دہشت گردی اور حفاظتی اقدامات عارضی، متناسب،اور عدالتی نظرثانی کے تابع ہونے چاہئیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر اور اس طرح کے دیگر خطوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری کو تسلیم کرے اور تحقیقات کرنے کےلئے ایک طریقہ کار قائم کرے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رپورٹ بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پہ کالک ہے۔اس وقت اگر کسی ملک میں اقلیتوں کا سنگین مشکلات کا سامنا ہے تو وہ بھارت ہے،ان سنگین مشکلات میں اضافہ مودی کے دور اقتدار میں زیادہ شدت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔بھارت ایک مکمل ہندوریاست بن چکی ہے،انتہا پسند ہندو کو کھل کھیلنے کی نہ صرف آزادہ ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی حاصل ہے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رپورٹ نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔اقلیتوں کو خاص کر مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بھی نہیں سمجھا جاتا ۔مسلمانوں طرح طرح کی دقتوں کا ہر وقت سامنا رہتا ہے،کبھی گوشت کی آڑ میں تو کبھی مذہبی اقدار کی پیروی کی آڑ میں تو کبھی شہری قوانین کی آ ڑ میں اور کبھی لو جہاد جیسے ڈھکوسلے کی آڑ میں ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ ایک پرلے درجے کا تشدد پسند ہندو ہے ،جس کے سامنے انسانیت کوئی وجود نہیں رکھتی جبکہ مسلمان اسکے نزدیک کیڑے مکوڑے ہیں ۔ اب اس خبیث الفطرت شخص نے مبینہ لو جہادکو روکنے کےلئے قصورواروں کو عمر قید کی سزا دینے کا قانون پیش کر دیا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن نے اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے منفی سیاست کی ایک اور مثال قرار دیا ہے ، لیکن اس کا اثر کہیں نہیں ہو گا۔تفسیل اس اجمال کی یہ ے کہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی اترپردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے پیر29جولائی کے روز مذہبی تبدیلی کی روک تھام(ترمیمی)بل پیش کیا ہے۔ جس میں لو جہاد کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے بعض اضافی جرائم بھی اس میں شامل کردیے گئے ہیں اور اس کے قصورواروں کو عمر قید تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ یوگی حکومت نے تبدیلی مذہب کے حوالے سے قانون 2021میں منظور کیا تھا۔اب اسی قانون کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ترمیمی بل پیش کیا گیا ہے۔ یوگی ناتھ حکومت نے جوترمیمی بل پیش کیا ہے اس میں بعض جرائم کے لیے سزاوں کی مدت دو گنا تک بڑھا دی گئی ہے جبکہ کئی نئے جرائم بھی اس میں شامل کردیے گئے ہیں ۔ نئے قانون میں صرف شادی کےلئے مذہب تبدیل کرنا غیر قانونی اور باطل ہوگا۔جھوٹ اور دھوکہ دہی سے تبدیلی مذہب کو جرم سمجھا جائے گا اور جو کوئی رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل کرنا چاہے اسے دو ماہ قبل مجسٹریٹ کو مطلع کرنا ہوگا۔ اسکی خلاف ورزی پر چھ ماہ سے تین سال تک کی سزا اور کم از کم دس ہزار روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔اسی طرح زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر ایک سے پانچ سال قید اور پندرہ ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ مودی حکومت میں اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ کشن ریڈی نے فروری 2020 میں پارلیمان میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا تھا کہ موجودہ قوانین کے تحت لو جہاد کی اصطلاح موجود نہیں ہے اور کسی بھی مرکزی ایجنسی کی طرف سے لو جہاد کا کوئی معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔انتہاپسند ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمان ہندو عورتوں کو اپنے محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔انکے نزدیک یہ ”لو جہاد“ ہے جو مسلمانوں کا ہندو مذہب کو کمزور کرنے کا ہتھیار ہے۔اسی لئے نام نہاد نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی عورت کو شادی کا جھانسہ دے کر مذہب تبدیل کرانے پر کم از کم بیس سال قید کی سزا دی جائے گی جسے توسیع کرکے عمر قید میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔عدالت ملزم پر پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی عائد کرسکتی ہے۔اس ترمیم کے بعد مسلم حلقوں میں بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔ریاست کی اپوزیشن جماعتوں نے یوگی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہیںکہ بی جے پی دراصل صرف منفی سیاست کررہی ہے۔آج سے چند سال قبل بھارت کی انسداد دہشت گردی کےلئے قائم ایجنسی این آئی اے نے ان معاملات کی تفتیش کی تو اسکے سامنے کوئی بھی مجرمانہ فعل سامنے نہیں آیا۔ایجنسی کا کہنا تھا کہ مبینہ لوجہاد کے معاملات کی تفتیش کے دوران یہ بات توسامنے آئی کہ مسلم ہندو لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان لو میرج ہوتی ہیں اور بعض معاملات میں مذہب بھی تبدیل ہوا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ایسا زور زبردستی یا کسی مجرمانہ سازش کے تحت کیا گیا۔جس پر این آئی اے نے لوجہاد کے حوالے سے تمام معاملات کی انکوائری بند کردی لیکن بدقسمتی سے یوگی ناتھ حکومت اس ایشو کو بلاجواز ہوا دیتی رہتی ہے۔خود وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ انتہاپسند تنظیم ”ہندو یووا واہنی“ اس معاملے میں پیش پیش رہتی ہے۔