ہر گزرتے دن کے ساتھ دلچسپ خبریں اور بریکنگ نیوز کالم نگاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔اس بار کا موضوع خالصتا سماجی نوعیت کا تھا مگر پاکستان میں ملٹری ٹرائل بارے یورپی یونین اور امریکی تشویش نے ہمیں بھی تشویش میں ایسا مبتلا کر دیا کہ قلم کا رخ ہی تشویش اور تشفی کی طرف مڑ گیا۔پھر رچرڈ گرنیل(جن کی وجہ شہرت بارے لکھنا مناسب نہیں)کے ٹویٹس اور ٹی وی گفتگو پر تو پاکستان تحریک انصاف کے کیمپوں میں شادیانوں نے لمحہ بھر کے لیے اوسان ایسے خطا کئے کہ تخیل میں Absolutly Not کو بھول کر *جی ھاں ھم غلام ہیں* کے ورد میں کھو گیا. ہوش سنبھلے تو ‘ تشویش’ کی تفشیش کی ٹھانی اور ان امور کے اساتذہ سے راہنمائی کے بعد قارئین کے لیے الجھی گھتیاں سلجھانے کے لیے خیالات کو سپرد قلم کرنا شروع کر دیا. یہ درست کہ سیاسی مخالفت کی بنا پر سزا کسی بھی جماعت کے کارکن یا راہنما کی۔نظریات کے اختلاف کے باوجود اس پر جشن منانا مردانگی ہے اور نہ جمہوری و سیاسی رویہ. ہاں اگر جرم شر انگیزی کا ہو یا فساد کا اور نظریات انتہا پسندانہ، تو یہ جرم بڑے سے بڑے سیاستدان، صحافی، دانشور کو معاف ہے اور نہ نظام عدل والے کو یا سول یا عسکری بیوروکریٹ کو، کہ ” فتنہ کو فتل سے بھی شدید تر” کہا گیا ہے اور ہمارے حالات اب کسی طور اس کی اجازت نہیں دیتے. اب بنظر عمیق بحث کرتے ہیں یورپی یونین، امریکہ اور رچرڈ گرنیل کی تشویش پرتشویش کی دو ہی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں (نمبر01) عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے مروجہ اصولوں کی خلاف ورزی پر جو یقینا بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اور علاقہ (نمبر 02) یورپ و امریکہ کی کسی فرد یا گروہ سے مفاداتی تعلق. اخلاقی اور آئینی تعریفات کی رو سے تشویش کو جائز مانا جاتا اگر یورپی یونین و امریکہ سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کا ضمیر کشمیر میں بھارتی بربریت، عقوبت خانوں میں پڑے 20 ہزار سے زائد جوانوں اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے قتل پر جاگتا. غزہ میں دودھ اور پیاس سے بلکتے بچوں پر انہیں تشویش ہوتی اور عالمی برادری کا ضمیر گزشتہ سات سے آٹھ ماہ کے دوران اسرائیلی سفاکیت و بربریت کہ جس کے نتیجہ میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کے قتل پر جاگتا۔ عراق، شام، لیبیا، افغانستان، لبنان میں لاکھوں بے گناہ مرنے والوں کے لیے قرارداد آتی۔مگر افسوس کہ جنہیں کے انسانی حقوق کے آگے ہمارے زعما دبے رہتے ہیں نے خون مسلم کو جانوروں جتنے حقوق دینے کی زحمت بھی نہ کی، انسانیت بلکہ مسلمانوں پر نیٹو اور امریکی تباہ کاریوں نے حقیقتاً ہلاکو و چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ گوروں کی اتنی سفاکیت کے بعد شاید ہلاکو و چنگیز کی روحوں کو کچھ تسکین ملی ہو۔اتنا سب کرنے کے بعد بھی شرم نہ آئی تو نام نہاد یورپی یونین، امریکہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو اور عالمی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اسماعیل ہانیہ کو برادر ملک ایران میں نشانہ بنایا گیا۔کشمیر میں حریت راہنماﺅں یسین ملک میر واعظ اور دیگر، عشروں سے بھارتی بربریت کا شکار اور جیلوں میں بند، مگر کسی پر بھی ان کی غیرت نہ جاگی، کئی مسلم ریاستوں کو شک کی بنا پر تخت و تاراج کرنے کے بعد بھی ان کی ہوس پوری نہ ہوئی تو اب ان کی گندی نظریں پاکستان پر.کبھی میزائل پروگرام پر پابندیوں کی باتیں تو کبھی ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کےلئے دبا اور کبھی انسانی حقوق کا واویلا ۔ ہماری بدقسمتی کہ عالمی عیاروں کو مکار یہیں سے میسر، اتنی تمہید کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے اسیروں کےلئے یورپی یونین و امریکہ کی تشویش، ہمارے لیے تشویشناک ہے یا نہیں اس کا فیصلہ معزز قارئین پر چھوڑتا ہوں.باہر نہ جائیں پاکستان کو ہی لیں کپتان کے دور میں ہزارہ برادری کی ایک صد لاشیں، تحریک لبیک پر گولیوں کی بارش، اس سے زرا پیچھے شریف برادران کے دور اقتدار میں ماڈل ٹان میں 14 بے گناہوں کا قتل اور 90سے زائد زخمی، جبکہ آئے روز پاکستان پر دہشت گردوں کے حملوں میں سیکورٹی فورسز کے جوانوں سمیت عام شہریوں کی شہادت، مگر عالمی برادری نے دہشت گردی فروغ دینے والے ممالک کو کبھی تنبیہ کی اور نہ پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے ڈویزرز پر کان دھرے۔اس سب کے باوجود پاکستان میں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کی سزاﺅں پر پیچ و خم۔یہ تشویش ہضم ہوتی ہے اور نہ ٹویٹ مگر ایک افتاد یہ بھی کھلاڑیوں کے سر.کہ وہ نادانی یا جوش جذبات میں کھلی باچھوں کے ساتھ اپنا مقبول عوام بیانیہ ہم کوئی غلام ہیں اور Absolutly Not بھول ہی گئے اور الوقت گرنیل اور ٹرمپ کی زلفوں کے ایسے اسیر ہوئے کہ کارکنان کو گاڑیوں اور سوشل میڈیا پوسٹوں سے Absolutly Not کے بینر اتارنے کا موقع ہی نہ دیا۔مگر آئے روز بیان، زبان اور پینترا بدلنے میں کپتان نے انہیں اتنا ماہر کر ہی دیا ہے کہ وہ اب اسکی کی بھی کوئی وجہ اور دلیل گھڑ ہی لائیں گے. اہل پاکستان کےلگے یہ حقائق چشم کشا بھی اور فہم کشا بھی کہ اس مملکت کے خلاف نہ ختم ہونے والی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔یورپ و امریکہ کو انسانیت سے غرض ہے اور نہ پاکستانی عوام سے۔وہ تو اپنے لے پالکوں کو بچانے کیلئے متحرک رہتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے وہ پاکستان جیسے اہم ملک پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں دہشت گرد معاشی ہوں، سیاسی ہوں یا انسانی، کسی کا اس ملک سے تعلق ہے اور نہ عوام سے غرض۔یہ مفادات کی تکمیل و ترویج کے لیے آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔بس ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان پائندہ باد !