کالم

یومِ سیاہ۔جب کشمیر کی آزادی چھینی گئی۔۔!!

سبھی جا نتے ہیں کہ27 اکتوبر 1947ء تاریخِ کشمیر کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے اپنی افواج سرینگر میں اتار کر ایک ایسی جارحیت کا آغاز کیا جو آج تک ختم نہیں ہوئی۔اسی وجہ سے دنیا بھر کے کشمیری اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، تاکہ عالمی برادری کو یاد دلایا جا سکے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ تقسیمِ ہند کے اصولوں اور اقوامِ متحدہ کے وعدوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ دن جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک ایسے المیے کی علامت بن چکا ہے جس نے نسلوں کو متاثر کیا اور خطے کے امن کو دائمی عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 19 جولائی 1947ء کو، یعنی تقسیمِ ہند سے محض چند ہفتے قبل، کشمیری عوام کے نمائندہ رہنماؤں نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس خطے کے مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں پر مبنی ایک فطری فیصلہ تھا۔ کشمیریوں کی اکثریت مسلم تھی، ان کی تجارتی و تمدنی وابستگی ہمیشہ سے وادی کے مغربی اور جنوبی راستوں یعنی پاکستان سے جڑی رہی۔ مگر بھارت نے ایک منظم منصوبے کے تحت اس فطری رجحان کو طاقت کے بل پر روند ڈالا۔سفارتی ماہرین کے بقول بھارت نے ریاست پر قبضے کیلئے مہاراجہ ہری سنگھ کے نام نہاد الحاقی خط کو جواز بنایا جو نہ صرف غیر آئینی تھا بلکہ اس پر کشمیری عوام کی رضامندی بھی حاصل نہیں تھی۔ یوں ایک سازش کے ذریعے کشمیر کی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو 27 اکتوبر وہ دن ہے جس نے کشمیر کو دنیا کے سب سے طویل فوجی محاصرے میں تبدیل کر دیا۔ بھارتی افواج نے وادی کو عملاً ایک عقوبت خانے میں بدل دیا ہے جہاں ہر گلی، ہر بستی اور ہر دل خوف اور بے بسی کا استعارہ بن چکا ہے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بھارت نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے ظالمانہ قوانین کا ایک جال بچھا رکھا ہے ۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور*پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین کے تحت قابض بھارتی فوج کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرے، حراست میں لے یا حتیٰ کہ ہلاک کر دے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں اب تک ہزاروں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات ریکارڈ ہو چکے ہیں، مگر انصاف آج بھی ناپید ہے۔اسی دوران، بھارت کے زیرِ انتظام لداخ کے عوام بھی دہلی کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ کشمیر ڈیموکریٹک الائنس * اور *لیہہ اپیکس باڈی * نے گزشتہ چند ہفتوں سے بھارتی حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ ان کے چار بنیادی مطالبات ہیں: لداخ کو ریاستی درجہ دیا جائے، اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے، لوک سبھا کی نشستیں دو کی جائیں اور راجیہ سبھا میں نمائندگی دی جائے۔ مبصرین کے مطابق لداخ جیسے علاقے میں ریاستی درجہ اور خودمختاری کا مطالبہ دراصل بھارتی پالیسیوں پر عوامی عدم اعتماد کی واضح دلیل ہے ۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کی زندگی میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی و آئینی خودمختاری، آزاد عدلیہ، متحرک میڈیا اور عوامی شرکت کا نظام موجود ہے۔ وہاں کے عوام تعلیمی، معاشی اور سیاحتی لحاظ سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں سی پیک منصوبوں کے باعث روزگار کے نئے دروازے کھل رہے ہیں اور بنیادی ڈھانچے میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے۔اس کے برعکس، بھارتی قبضے کے تحت جموں و کشمیر کے عوام آج بھی محصور، مظلوم اور بے آواز ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کے غیر آئینی اقدام کے بعد بھارت نے نہ صرف ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیا بلکہ ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کر کے آبادی کا تناسب بدلنے کی مکروہ مہم شروع کررکھی ہے۔سفارتی ماہرین کے بقول یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت اب کشمیر کی مسلم شناخت کو مٹانے اور وہاں کی زمینوں پر غیر کشمیری ہندوؤں کو بسانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔اسی تناظر میں دنیا بھر کے کشمیری 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ بھارت کی تمام تر طاقت اور جبر کے باوجود کشمیریوں کے دلوں سے آزادی کی تڑپ کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ یہ دن نہ صرف ماضی کے زخموں کی یاد دلاتا ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے متعدد بار اس تنازع کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر بھارت اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی تو جنوبی ایشیا کا امن ہمیشہ کیلئے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 27 اکتوبر صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔غلامی کیخلاف مزاحمت کا، ظلم کیخلاف استقامت کااور آزادی کی لازوال جدوجہد کا۔ کشمیری عوام آج بھی اسی عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایک دن ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور سری نگر سے مظفرآباد تک صرف ایک ہی نعرہ گونجے گا: *ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔”اس حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مئی 2025میں ہونیوالی پاک بھارت کشیدگی جس میں پاکستان کو واضح برتری حاصل ہوئی ، اس نے بھی مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر مرکز نگاہ بنا دیا ہے کیونکہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مسئلہ کشمیر کو پر امن طو ر پر حل کرنے پر زور دیا ہے جس سے بھارتی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے