یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ نومبر 1947 میں جموں کے مسلمانوں پر ایک ایسی قیامت ٹوٹی جس نے پوری وادی کو لہو سے نہلا دیا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ **ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ** کی فوج، ہندو انتہا پسند تنظیم **راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)** اور **پٹیالہ و کپور تھلہ** سے آنے والے مسلح جتھوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔تاریخی ماخذوں کے مطابق صرف **دو ماہ** کے قلیل عرصے میں **دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد مسلمان** شہید کیے گئے۔ لندن کے مشہور جریدے **ٹائمز (10 اگست 1948ئ)** کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ”ہندو ڈوگرہ مہاراجہ کی فوجوں نے 2,37,000 مسلمانوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔” مبصرین کے مطابق یہ انسانی تاریخ کے بدترین قتلِ عام میں سے ایک تھا — جس کی شدت نازیوں کے ہولوکاسٹ سے بھی زیادہ تھی کیونکہ وہاں چار سے پانچ سال میں جتنے انسان مارے گئے، جموں میں اتنی ہلاکتیں محض **دو ماہ** میں ہوئیں۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ عالمی ضمیر نے امریکی **نائن الیون** یا نازی مظالم پر تو آواز اٹھائی، مگر **کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی** کو تقریباً فراموش کر دیا گیا، حالانکہ یہاں اموات کی تعداد امریکی نائن الیون سے **سو گنا زیادہ** تھی۔تقریباً **پانچ لاکھ** مسلمان اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر **پاکستان، پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر** کی سرحدوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں جموں میں مسلمانوں کی آبادی، جو اس سے قبل **61 فیصد** تھی، اقلیت میں تبدیل کر دی گئی۔سفارتی ماہرین کے بقول یہ محض مذہبی تعصب نہیں بلکہ یہ کشمیری مسلمانوں کی منظم نسل کشی تھی جس کا مقصد جموں کی **آبادیاتی ترکیب (Demographic Composition)** کو مستقل طور پر تبدیل کرنا تھا تاکہ مستقبل کے کسی ریفرنڈم میں کشمیری مسلمانوں کی اکثریت ختم کی جا سکے ۔آر ایس ایس کے انتہا پسند گروہ، جو اس وقت ہندو قوم پرستی کی بنیاد ڈال رہے تھے، کو مہاراجہ ہری سنگھ کی سرپرستی حاصل تھی۔ گورنر چت رام چوپڑا اور*ڈی آئی جی بخشی ادھے چند* جیسے اعلیٰ عہدیداران نے مسلح ہندو جتھوں کو منظم اور تربیت یافتہ بنایا۔ *مہاراجہ کے حکم پر کشمیری مسلمانوں سے اسلحہ جمع کیا گیا، فوج اور پولیس سے مسلمان اہلکاروں کو برخاست کیا گیا** اور انہیں غیر محفوظ بنا دیا گیا۔یہ امر خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ **مہاتما گاندھی** نے خود 25 دسمبر 1947ء کو اعتراف کیا کہ ”جموں کے ہندوؤں نے کشمیری مسلمانوں کو قتل کیا، عورتوں کی عصمت دری کی، اور اس ظلم کی ذمہ داری مہاراجہ پر عائد ہوتی ہے۔” ان کے یہ الفاظ ”Collected Works of Mahatma Gandhi” کے جلد 90 میں محفوظ ہیں۔مشہور کشمیری پنڈت صحافی **وید بھسین** (1929–2015) نے بھی تسلیم کیا کہ اودھم پور، ریاسی، چنانی اور بھدرواہ میں ہزاروں کشمیری مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور یہ سب کچھ آر ایس ایس کے کارکنان نے مہاراجہ کے تحفظ میں انجام دیا۔اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان (UNCIP) کی **1949ء کی رپورٹ** میں بھی ایک زمیندار کے بیان کا ذکر ہے کہ ”مہاراجہ نے خود بھمبر کے دورے میں کشمیری مسلمانوں کو ختم کرنے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھوں سے کئی کشمیری مسلمانوں کو گولی ماری۔”یہ قتلِ عام بلاشبہ **دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا قتلِ عام** قرار دیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر موجودہ **اسرائیلی جارحیت** میں 67,000 فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں تو جموں کے کشمیری مسلمانوں کا المیہ اس سے کئی گنا زیادہ ہولناک تھا۔یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعد ازاں ہندوستان نے اسی منصوبہ بندی کو بنیاد بنا کر **27 اکتوبر 1947ئ** کو اپنی افواج سرینگر میں اتار دیں اور ریاست جموں و کشمیر پر **غاصبانہ قبضہ** کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی کشمیری عوام کا حقِ خود ارادیت پامال کر دیا گیا جو آج تک تسلسل کے ساتھ دبا ہوا ہے۔اسی تناظر میں مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ **نریندر مودی حکومت** نے 2019ء میں **آرٹیکل 370 اور 35ـA** کی منسوخی کے ذریعے وہی پالیسی دوبارہ زندہ کر دی ہے جو مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947ء میں اپنائی تھی — یعنی **کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ۔ **اقوام متحدہ کے **جنیوا کنونشن** کی رو سے قابض طاقت کی جانب سے اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنا جنگی جرم ہے، مگر بھارت آج بھی کھلے عام ایسا کر رہا ہے۔ **سری نگر 2035ء پلان** کے تحت **34 لاکھ بھارتی شہریوں کی آبادکاری** کا عمل جاری ہے جبکہ کشمیریوں کے گھروں کی مسماری ، زمینوں کی ضبطی اور زبردستی نقل مکانی معمول بن چکی ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ کشمیر کی موجودہ عسکری، سیاسی اور انسانی المیہ کی جڑیں دراصل **جموں کے اسی قتلِ عام ** میں پیوست ہیں۔ وہی انتہا پسندانہ ذہنیت جو 1947ء میں آر ایس ایس کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کے خون سے تر ہوئی تھی، آج نریندر مودی اور امیت شاہ کی حکومت میں **ریاستی پالیسی** کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ ہر سال **6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری یومِ شہدائے جموں** مناتے ہیں تاکہ اُن معصوموں کی قربانیوں کو یاد رکھا جا سکے جنہیں صرف اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں چُن چُن کر قتل کیا گیا۔یہ بات تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہے کہ **جموں کا قتلِ عام** نہ صرف کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کا نقطہ آغاز بنا بلکہ یہ برصغیر میں ہندو انتہا پسندی کے حقیقی چہرے کو بھی بے نقاب کر گیا۔ آج بھی اگر عالمی برادری نے اس المیے کو تسلیم نہ کیا تو تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔

