جمعة المبارک کو معرکہ حق میں پاکستانی قوم کی بھرپور اور نمایاں کامیابی پر ملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا ہی نہیں عالمی جنگی تاریخ میں کسی ملک کا اپنے حریف کو چند گھنٹوں میں ہی سیز فائر پر مجبور کردینا ہر لحاظ سے غیر معمولی واقعہ ہے ،پاکستانی قوم نے بھارت کے ساتھ جاری جنگ میں ثابت کیا کہ وہ ہمیشہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہ کرابادی اور رقبہ کے اعتبار سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست فاش دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، یقینا پاکستانیوں کی اکثریت بھارت سمیت کسی بھی ملک سے جنگ کرنے کی خواہاں نہیں، اس کی وجہ یہ کہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے مملکت خداداد حالت جنگ میں ہے ۔ ماضی میں اگر کراچی میں لسانی بنیادوں پر قتل عام جاری رہا تو آج بلوچستان اور خبیر پختوانخواہ میں سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر کشت وخون کا سلسلہ کیا جارہا ہے، یہی سبب ہے کہ جب بھارتی درخواست پر امریکی صدر نے پاکستان سے سیز فائز کا مطالبہ کیا تو قوم نے اس کے حق میں رائے دی ، یہی وجہ ہے کہ یوم تشکر کے روز ملک بھر کی مساجد میں خصوصی دعاوں کا اہتمام کیا گیا جس میں عوام نے جوش وخروش کے ساتھ شرکت کی۔ پاکستانیوں نے خالق کائنات کے حضور سجدہ شکر بجا لایا کہ اس نے واضح جیت سے ہمکنار کیا ۔یوم تشکر کی مرکزی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی ، جس میں حکومت ہی نہیں مسلح افواج کی قیادت اور شہدا کے اہلِ خانہ سمیت بڑی تعداد میں ملکی عمائدین اور پاکستان میں تعینات سفارتی اراکین شریک ہوئے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں دفاع کی خاطر جانوں کا نذارنہ پیش کر نے والوں کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا ، ہمارا دشمن یقینا جان گیا کہ دفاع وطن کے لیے پوری قوم پاکستانی قوم یک جان ہے، مودی اور اس کے حواری یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان پر جو ہی حملہ کیا جائے گا چاروں صوبے باہم دست وگربیان ہوجائیں گے ، مگر ہوا باکل برعکس مثلا بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کا بچہ بچہ دفاع وطن کے لیے میدان میں نکل آیا دراصل پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسی جمہوری اور اسلامی ریاست کی تشکیل تھی جو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں دنیا بھر کے اہل توحید کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لائے۔ اس پس منظر میں لازم ہے کہ بھارت کے خلاف قوم کے اتفاق واتحاد کو لے کر آگے بڑھایا جائے۔ یقینا گزرے ماہ وسال کی کوتاہیوں کے ازالہ کا وقت آگیا ہے۔ افسوس کہ نریندی مودی کی اپنے ہمسایہ ممالک کو دباو میں رکھنے کی خواہش نے بھارت کو جنوبی ایشیا کا ناپسندہ ترین ملک بنا دیا ۔ آج پاکستان ہی نہیں بنگہ دیش اور چین کے ساتھ بھی نئی دہلی کے تعلقات دوستانہ نہیں رہے ۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بہت حد تک تبدیل ہوچکا ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ پرہے کہ پاکستان کے بھارت کی طرح کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہےاس کے برعکس پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا پرامن حل چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلوبل ویلج بن جانے والی دنیا میں بقائے باہمی تعاون اور ترقی کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ کھلا راز ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کا دور دورہ ہو۔ اس کے برعکس مودی سرکار نے پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان بارے جھوٹ ، دورغ گوئی اور الزام تراشی کے تمام ریکارڈ توڈ ڈالے ، عالمی برداری جانتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیوں اور کیسے مسترد کردیا گیا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھارت پر جنگی جنون کا پاگل پن سوار تھا ، یہ بھی ممکن ہےکہ مودی سرکار پہلگام واقعہ میں سیاسی فائدہ تلاش کررہی تھی، پاکستانی پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے آر ایس ایس کے انتہاپسندانہ فلسفہ پر پیرا حکومت نے پاکستانی شہری آبادیوں اور مساجد پر بمباری کر دی ، یقینا پھر جو ہوا تاریخ ہے ، کل کا ہر غیرجانبدار ہر مورخ گواہی دے گا کہ کیسے پاکستاننے بھارتی جارحیت کا نے نہ صرف بھرپور جواب دیا بلکہ جنگی جنون کی ناک زمین پر رگڑی تشویشناک یہ ہے کہ مودی سرکار آج بھی تسلسل کے ساتھ پاکستان کو دھکمیاں دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان دونوں ملکوں کے مابین بامقصد اور تعمیری مذاکرات شروع کرنے کے موقف پر قائم ہے۔ پاکستان کی جانب سے کمپوزٹ ڈائیلاگ کے احیا کی خواہش دراصل اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کیلئے تیار ہے ، پاکستان جانتا ہے کہ خطے میں دیرپا امن وخوشحالی باہمی مسائل کے پرامن حل سے ہی ممکن ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان اور بھارت میں 1997 میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کا عمل شروع ہوا جس کا مقصد تمام اہم مسائل پر جامع بات چیت کرنا تھا۔ اس ڈائیلاگ میں آٹھ اہم نکات شامل تھے؛ جن میں مسئلہ کشمیر دہشت گردی، سیاچن سرکریک پانی کے مسائل تجارتی تعلقات کا فروغ ثقافتی تبادلے اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے احیا سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ جنوبی ایشیا میں تعمیر وترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں ٹھوس مدد مل سکتی ہے۔