کالم

یوم شہداءاور دفعہ 370کی تحلیل کا کیس

بھارتی سپریم کورٹ نے اگلے ماہ دو اگست سے کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370کو تحلیل کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، جسے مودی حکومت نے 5 اگست 2019میں ختم کرنے کے ساتھ ہی سابقہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ایسا کرنے کے بعد حکومت نے وادی کشمیر میں مہینوں کرفیو جیسی سخت بندشیں عائد کر دیں اور انٹرنیٹ و فون سروسز پر ایک طویل وقت تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کی متعدد سیاسی شخصیات نے مودی حکومت کے اس فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔لیکن مودی حکومت کے دباو¿ کے سامنے ان درخواستوں کی گزشتہ چار سال سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔کئی برس سے درخواست گزاراسکی سماعت کی استدعا بھی کرتے رہے، تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اس مقدمے پر سماعت نہیں کی۔ ایک طویل انتظار کے بعد گزشتہ ہفتے کو عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وہ اگلے ماہ دو اگست سے اس پر یومیہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی۔ اس کےلئے بھارتی چیف جسٹس آف ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا ایک آئینی بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ اس بنچ کے دیگر ججوں میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں۔اس سلسلے میں سماعت کے دوران مودی کی حکومت نے اپنا ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں 2018 کے دوران کشمیر میں 52ہڑتالوں کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت کے فیصلے کی وجہ سے اب یہ صفر پر آ گئے ہیں۔اس حلف نامے میں حکومت نے مزید دعویٰ کیا کہ تقسیم کے بعد مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقوں نے گزشتہ چار برسوں کے دوران کافی بہتری، مثبت اور ترقی پسند تبدیلیاں دیکھی ہیں۔اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ترقیاتی سرگرمیوں نے عوامی انتظامیہ اور سکیورٹی کے معاملات پر مثبت اثر ڈالا ہے اور بلا لحاظ مذہب ملت سبھی پر اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس میں کہاں تک صداقت ہے اس فیصلہ تو کشمیری عوام ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم دوسری طرف کشمیر کے بھارت نواز رہنماو¿ں نے بھی مودی حکومت کے اس حلف نامے پر شدید تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹے دعوے ہیں اور کشمیر میں اس سے مثبت تبدیلی نہیں بلکہ اس کے ہر جانب منفی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ جبر سے زمینی حقائق نہیں بدل سکتے اور نہ ہی دل جیتے جا سکتے ہیں۔کشمیری آزادی چاہتے ہیں ، انہیں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ اپنی رایے دینے کا موقع دینا چاہئے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔ان کے اس حق کو یو این او برسوں پہلے تسلیم کر چکی ہے۔خود بھارت کو دیکھنا ہو گا کہ کشمیریوں کی یہ جدوجہد آزادی کب سے ہے کیا یہ دو چار برس کی بات ہے یا ایک صدی کا قصہ ہے۔ذرا ماضی اور تاریخ کے اوراق کھنگال کر تو دیکھے ،اسے ساری حقیقت سامنے دکھائی دے گی۔ 92برس قبل ایک ایسا انوکھا واقعہ پیش آیا کہ جس نے قربانی کی انمٹ مثال رقم کر دی۔ 13جولائی 1931کو سرینگر جیل کے باہر ظالم ڈوگرہ مہاراجہ کے سپاہیوں نے 22 کشمیریوں کو اذان دینے کی کوشش کرتے ہوئے شہید کیا تھا۔اس روز کشمیری عوام ڈوگرہ حکمران کے خلاف اور تحریک آزادی کے رہنما عبدالقدیر خان غازی پر مقدمے کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ سینٹرل جیل سری نگر میںمقدمہ کی کارروائی جاری تھی کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور احتجاج کرنے والوں سے ایک نے اذان دینا شروع کر دی ک تاکہ نماز ادا کی جا سکے مگر یہ بات ڈوگرہ راج کو گوارہ نہ ہوئی اوراس نوجوان کو اذان دینے کی کوشش کے وقت پولیس نے گولی مار کر شہید کر دیا۔اسی دوران ایک اور شخص اذان جاری رکھنے کے لیے کھڑا ہوا اور اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس طرح اذان کی تکمیل تک 22 کشمیریوں نے اس عمل میں جام شہادت نوش کیا۔یہ المناک دن کشمیر پر قبضے کے خلاف جدوجہد کا اہم سنگ میل ہے ۔ مسلمانوں کے غصے اور مزاحمت کے باوجود انگریزوں نے جموں و کشمیر ہندو مہاراجہ گلاب سنگھ کو 750,000 روپے میں بیچ دیاتھا۔ اسلام دشمن مہاراجہ نے نماز کے خطبہ پر پابندی لگا رکھی تھی، قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دے رکھی تھی اور کئی مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رکھا تھا۔اسی ضمن میںیوم شہدائے کشمیر ہر سال 13جولائی کو نہ صرف لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بلکہ پوری دنیا میں کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے منایا جاتا ہے ۔ ڈوگرہ حکمرانی کا 100سالہ دور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کےلئے مصائب کی تاریخ کا تاریک حصہ ہے اور حقیقت یہ بھی ہے کہ مودی راج بھی بھارتی مسلمانوں کے لئے قہرہی ہے ۔ 13جولائی کو سرکاری طور پر 1949 سے جموں و کشمیر میں یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا تھا لیکن 2019 میں آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد نئی دہلی نے اسے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نکال دیا۔ اگرچہ کشمیریوں کو ہندوستانی جابر حکومت کی جانب سے اس دن کی یاد منانے کی اجازت نہیں دی جارہی، تاہم وہ اس دن کی اہمیت کو یاد رکھتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں 2019کے بعد سے اس دن کی یاد پر پابندی کشمیریوں کو ان کی تاریخ اور ثقافت سے دور کرنے کے بھارتی منصوبے کا حصہ ہے ۔ تاہم آزاد جموں و کشمیر میں مختلف تقریبات اور سرگرمیوں کے اہتمام کے ذریعے شہدائے کشمیر کو بھرپور طریقے سے یاد کیا جاتا ہے۔کشمیری آج بھی اپنی سرزمین پر بھارتی قبضے کے خلاف آزادی کے جذبے سے لبریز اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے