کالم

یوم شہداء اوربھارتی مظالم

14 اگست 1947کو قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہندوں اور سکھوں نے ظلم کا بازار مزید گرم کردیا، دیکھا دیکھی جموں میں بھی بھارت اور ڈوگرہ کی مشترکہ سازشوں نے مسلمانان جموں کا ناقابل تلافی نقصان کیا، اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی کل ابادی 40 لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کی ابادی 32 لاکھ تھی یعنی غیر مسلم صرف 8 لاکھ تھے صوبہ جموں میں 61 فیصد مسلمان صوبہ کشمیر میں 93 فیصد اور سرحدی اضلاع میں 86 فیصد مسلمان آباد تھے، بھارت اس اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا ناپاک پلان تیار کرچکا تھا ۔مارچ 1947 سے ہی ظلم و بربریت تیز کردی تھی مگر بڑے قتل عام کے منصوبہ کے تحت اکتوبر میں اسکا آغاز مظفرآباد سے کرنا تھا جسے مسلمانوں نے قبائلی مجاہدین کی مدد سے ناکام بنا کر موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ آزاد کروا لیا مگر صوبہ جموں میں نومبر کے پہلے ہفتے میں جس طرح کشمیری مسلمانوں کا قتل عام اور ھجرت پر مجبور کیا گیا اسکی مثال نہیں ملتی جب مسلمانوں کو تقسیم ہند کا پلان بتا کر انہیں کہا کہ آپکو پاکستان بھیجا جارہا ہے اور گاجر مولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹا گیا اس وقت کے عالمی میڈیا نے شہدا کی تعداد اڑھائی لاکھ بتائی ،اسکے بعد 1961 کی مردم شماری کے مطابق صوبہ جموں میں مسلمانوں کی تعداد 51963 رہ گئی تھی بقیہ سب شہید کردیئے گئے کچھ سیالکوٹ، میرپور، مظفرآباد ودیگر علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔جیسا کہ ہم نے ابتدائی سطور میں عرض کیا کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ھی ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں خاص طور پر جموں کے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی مہم کا آغاز مارچ 1947 سے ھی کر دیا گیا مہاراجہ کے حکم پر مسلمانوں سے ھتیار لے لیے گئے ۔آرایس ایس کے لیڈر بسنت راوایگر ،مہاراجہ کے گرو سوامی سنت دیو، اور مہارانی تارا دیوی نے مقامی ھندوں و سکھ نوجوانوں کو مندروں میں عسکری تربیت دینے کے علاہ انھیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے شروع کر دیا ۔مہاراجہ نے پٹیالہ ،کیورتھلہ اور فرید کوٹ کے سکھ حکمرانوں کے تعاون ڈوگرہ فوج ، آر -ایس-ایس ،مقامی ھندوں اور سکھ جتھوں کی مدد سے پاکستان اور کشمیر کے درمیان تقریبا تین میل چوڑائی کے علاقے کو بفر زون میں تبدیل کرنے کے علاوہ اس مسلم کشی کو پونچھ ،جموں اور کشمیر تک پھیلا دیا تھا، اگست ستمبر ،اکتوبر 1947تک جموں ، کٹھوعہ ،سانبہ،اکھنور،میراں صاحب ،رائے پور ،رام نگر ،استاد محلہ ،تالاب کھٹیکاں و مضافات میں مقیم ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ اکتوبر 1947کے تیسرے ھفتہ میں برطانیہ کے ڈپٹی ھائی کمشنر کو علاقہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کشمیر بھیجا گیا انھوں نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا "کہ دریائے چناب کے کنارے آباد تقریبا 20 دیہاتوں کو جلا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور مساجد راکھ بنا دی گئیں۔ 05 نومبر 1947 کو جموں کے مسلمانوں کو کہا گیا کہ وہ پولیس لائنز جموں میں جمع ھو جائیں تاکہ انہیں بیسوں ٹرکوں اور ریل کے ذریعے پاکستان پہنچایا جائے لیکن ان جموں کے کشمیری مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بجائے کٹھوعہ اور سانبہ کے جنگلات اور ریل گاڑیوں کو ویرانے میں پہچا کر شہید کر دیا گیا ۔ان فسادات میں صوبہ جموں کے 123 دیہات کو مکمل صفحہ ھستی سے مٹا دیا گیا ۔لندن ٹائمز کے مطابق ” جموں کے علاقے میں دولاکھ سینتیس ہزارمسلمانوں کو شہید کیا گیا اور 5لاکھ لوگوں کوہجرت پر مجبور کیا گیا ، اس عظیم ہجرت اور قربانیوں سے عبارت ماہ نومبر کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے جن شہدا نے ہمارے کل کی خاطر اپنا آج قربان کیا تاریخ ایسے عظیم کرداروں کو ہمیشہ سلام کرتی رہے گی، جموں کے کشمیریوں کی قربانیاں تاریخ کی روشن حقیقت اور عزم و استقلال کا پیغام ھے ۔شہدائے جموں کا خون اس دھرتی کی بنیاد اور ھماری پہچان ھے ، آئیے عہد کریں کہ ہم شہدائے جموں کے مشن کو کشمیر کی آزادی تک زندہ رکھیں گے اور آزاد جموں وکشمیر کو حقیقی بیس کیمپ کا روپ دے کر آزادی کیلئے عملی جدوجہد کریں گے جس کا وعدہ ہمارے مشاہیر ریاست نے 24 اکتوبر 1947 کو کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے